اسلام آباد(ایس ایم حسنین) کراچی سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت نے اپنی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تاہم انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ پارٹی سے علیحدگی اختیار نہیں کررہے۔ استعفیٰ دینے کا اعلان انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کیا جس میں استعفے کی وجہ کراچی میں بجلی بحران کے حل کے لیے کچھ نہ کرپانے کو قرار دیا۔ اپنے پیغام میں عامر لیاقت نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے وقت مانگا ہے جس میں وہ انہیں استعفیٰ پیش کریں گے۔
اس پیغام کے ردِ عمل میں ایک صارف کی جانب سے فیصلے پر غور اور وزیراعظم عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑنے پر زور دیا گیا، جس پر عامر لیاقت نے جواب دیا کہ ’خان صاحب کا ساتھ چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔خیال رہے کہ اس سے قبل بھی عامر لیاقت کے الیکٹرک پر برہمی اور اپنی جماعت میں اختلاف کا اظہار کرچکے تھے۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ میری جماعت مجھے کراچی کا نمائندہ نہیں گردانتی، کوئی بات نہیں ،عمران خان تب بھی میرا لیڈر ہے اور رہے گا البتہ کے الیکٹرک کے معاملے پر میں پہلی باراپنے کپتان سے ملتمس ہوں مجھے آن بورڈ لیا جائے اپنے پیغام میں عامر لیاقت نے یہ کہا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں کراچی کا ایک بے بس رکن قومی اسمبلی ہوں اور اپنے شہر کے لوگوں کو بجلی فراہم کروانے سے قاصر ہوں۔
انہوں نے لکھا کہ مجھ سے کراچی اور بالخصوص اپنے حلقے کے لوگوں کا تڑپنا، سسکنا اور مونس علوی (سی ای او کے الیکٹرک) کے جھوٹ سہنا نہیں دیکھا جاتا۔
خیال رہے اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اور کراچی کے حلقہ 256 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے محمد نجیب ہارون نے اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انجیب ہارون نے بھی استعفے کی وجوہات میں لکھا تھا کہ ’ وہ 20 ماہ کی مدت کے دوران اپنے حلقے یا شہر کراچی کے لیے کچھ نہ کرسکے اس لیے وہ اس پوزیشن کے حقدار نہیں‘۔ یاد رہے کہ عامر لیاقت نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز متحدہ قومی موومنٹ سے کیا تھا اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں وہ 3 سال تک وزیر مذہبی امور بھی رہے تھے، تاہم مارچ 2018 میں انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
جس کے چند ماہ بعد ہی ان کی تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ تلخیاں بھی سامنے آگئی تھیں۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی کو 2018 کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ شہر قائد سے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی اور وہ یہاں قومی اسمبلی کی 14 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی تاہم نجیب ہارون کے مستعفی ہونے کے بعد یہ تعداد 13 رہ گئی تھی۔ یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی سرگرمیوں کا حب سمجھے جانے والے کراچی میں لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہوگئی ہے۔
مذکورہ صورتحال پر پی ٹی آئی سمیت متعدد سیاسی جماعتیں مثلاً جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ اور پی ایس پی کی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور وزیراعظم نے کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو حل کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔اس ضمن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سی ای او کے الیکٹرک نے اعتراف کیا تھا کہ شہر میں7 سے 8 گھنٹے کی لوڈ شیئڈنگ کی جارہی ہے اور یہ سلسلہ ان علاقوں میں بھی جاری ہے جنہیں لوڈ شیڈن سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 10 سے 12 دن بعد درجہ حرارت ایسا ہو جائے گا کہ طلب کم ہوجائے گی اور شارٹ فال میں بھی کمی آجائے گی۔