موقر قومی اخبار کا ہوشربا اداریہ جو پاکستان اورایران اورسعودیہ جیسے ملکوں سمیت دیگر اسلامی ملکوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے اکثیر کا درجہ رکھت اہے!
تلخ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو اتنا نقصان غیروں نے نہیں پہنچایا جتنا کہ خود مسلمانوں نے پہنچایا۔ وجہ فروعی اختلافات اور علاقائی تعصب تھا۔ ایسے ہی معاملات کے باعث مشرق وسطیٰ مبارزت کے دہانے پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ وجہ سعودی عرب کے تیل کی تنصیبات پر حملہ ہے، جس کا الزام ایران پر لگایا جا رہا ہے، ایران اس کی تردید کر رہا ہے لیکن امریکہ جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے قبل سعودی عرب میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا بعد ازاں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات میں سعودی تیل کی رسد گاہوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے یقین دلایا کہ حرمین شریفین کے تقدس و سلامتی کو خطرے کی صورت میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوں گے، شاہ سلمان نے مسئلہ کشمیر پر دیرینہ حمایت اور یکجہتی کا اعادہ کیا۔ دوسری جانب سعودی آئل تنصیبات پر حملے کے بعد امریکہ اور ایران آمنے سامنے آ گئے ہیں اور لفظی جنگ جاری ہے، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ جواب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب یا امریکہ کی طرف سے
ایران پر کسی بھی حملے کا مطلب کھلی جنگ ہو گا۔ ادھر اقوام متحدہ کے آئل تنصیبات پر حملے کے ماہر سعودی عرب پہنچ گئے۔ امریکی حکام حملے کا الزام ایران پر لگاتے ہوئے بیان دے رہے ہیں کہ ان حالات میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جواد ظریف نے امریکی ٹی وی کو بیان دیا کہ جنگ نہیں چاہتے لیکن دفاع سے آنکھ بھی نہیں جھپکیں گے، ایران پر الزامات امریکہ کو جنگ میں دھکیلنے کی کوشش بھی ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری کی بات ہے تو ان کی تاریخ خاصی طویل ہے، جس کا تذکرہ شاہنامہ فردوسی میں عرب بالادستی کا تذکرہ کرنے کے بعد ’’تفوبر تو اے چرخ گردوں تفو‘‘ کی صورت میں ملتا ہے، یہ علاقائی تعصب بعد ازاں نظریاتی تعصب میں بھی تبدیل ہو گیا اور آج مشرق وسطیٰ کا ہر ملک اپنے مکتبِ فکر کے باعث سعودی حلیف ہے یا ایرانی۔ افسوس کہ امہ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہی کہ ان کے نام نہاد پشتیبان محض اپنے مفادات کے لئے ان کا استعمال کر رہے ہیں، کیا عراق کو برباد کرنے سے حالات درست ہوئے؟ کیا شام اور افغانستان پر برسنے والے بموں نے لوگوں سے ان کا مکتبِ فکر پوچھا؟ مسلمان جتنے بھی بٹے رہیں دوسروں کی نظر میں صرف اور صرف مسلمان ہیں، افسوس کہ وہ خود کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ بجا کہ ایران اور سعودی عرب میں سے کوئی بھی جنگ نہیں چاہے گا، تاہم ان کے حلیفوں میں سے کسی نے کوئی بڑی کارروائی کر دی تو معاملات کو خرابی بسیار کی طرف جانے سے کوئی نہ روک سکے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی حفاظت کی کبھی ہامی نہیں بھری تو دوسری طرف ایران کیخلاف جنگی تیاریوں کی بات ہو رہی ہے یہی مبہم طرز عمل خطے میں اضطراب کی اصل وجہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو خود سوچنا ہوگا کہ آخر وہ کب تک دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہیں گے اور یہ بھی کہ خدانخواستہ جنگ ہو گئی تو پورا مشرق وسطیٰ اس کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج عالمِ اسلام اتحاد و اتفاق کے بجائے انتشار و افتراق کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی برادری حالات کو معمول پر لانے کی سعی کریں ورنہ اطلاعات تو یہ ہیں کہ استعماری قوتیں طالبان سے مذاکرات ختم کر کے جنگ کا دائرہ کار مشرق وسطیٰ تک بڑھانا چاہتی ہیں۔ امہ کو باہمی تصادم کی راہ روکنا ہو گی۔