تحریر: مصعب حبیب
سعودی عرب پاکستان میں زلزلے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے ریلیف پیکج کے تحت 1900 مکانات ،33 اسکول اور صحت کے 23 مراکز تعمیر کررہا ہے۔ سعودی مہم برائے پاکستانی عوام کے علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد محمد آل عثمانی نے کہا ہے کہ یہ مکانات صوبہ بلوچستان اور گلگت بلتستان ،اسکول اور مراکز صحت سندھ ،بلوچستان ،خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں تعمیر کیے جارہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ زلزلے سے متاثرہ اڑتالیس مساجد کی تعمیرنو کریں گے۔پینے کے صاف پانی کی بہم رسانی کے لیے بھی مختلف منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ ہم ہسپتالوں،مکانوں،مراکزصحت ،یتیم خانوں اور پینے کے پانی کی سہولت مہیا کرنے کے لیے ایک مربوط امدادی پروگرام پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں اور اس مہم کے تحت زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے کام کیے جائیں گے۔
پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات چونکہ شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں، اس لئے وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو، سرزمین حرمین الشریفین کیلئے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثار و قربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔ پاک سعودی تعلقات اگرچہ ابتداء سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ انہوں نے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور صرف دونوں ملکوں کو قریب کرنے کیلئے ہی نہیں پوری اْمت مسلمہ کے اتحاد کیلئے زبردست کوششیں کی، جس پر دنیا بھر کے مسلمان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سبھی مسلم حکمرانوں کو ان جیسا کردار ادا کرنے میں کوشاں دیکھنا چاہتے ہیں۔
سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر کھل کرپاکستان کے موقف کی تائید و حمایت کی ہے۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل نے مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی۔ دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا اور روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے۔
2010 ء میں آنے والے سیلاب کے دوران جہاں خیبر پختونخواہ کے دیگر علاقوںمیںبہت زیادہ نقصانات ہوئے وہیں وادی سوات کوبھی شدید نقصان پہنچا۔ بحرین، مدین اور کالام کے علاقوںتک جانے والی سڑکوں پر بنے ہوئے تمام پل سیلابی پانی میں بہہ گئے جس سے ایک طرف ان علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا وہیں پر سینکڑوں مکانات تباہ اور ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبورہو گئے۔ان حالات میں ایک بار پھر پاکستان کے سب سے بڑے محسن ملک سعودی عرب نے برادرانہ کردار اداکیا اور یونائیٹڈ نیشنز آفس فار پروجیکٹ سروسز (یو این او پی ایس) کے تعاون سے تباہ شدہ پلوں کی تعمیرکابیڑہ اٹھایااور مختصر عرصہ میں شاہ گرام اور دیگر پلوں کی تعمیر کا عمل مکمل کیا گیا۔سعودی عرب کی انہی رفاہی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردار سے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے اور اس کے لیے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔ سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے تیل کے ذخائر کے دولت سے نواز رکھا ہے۔ اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے لیے اقتصادیات، تعلیم اور دوسرے موضوعات پر ماہرین کی عالمی کانفرنسیں طلب کرنے جیسے اقدامات کرکے سعودی عرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان کو حل کرنے کے لیے مشترکہ طریق کار طے کر سکیں۔
سعودی عرب کی مالی امداد سے دنیابھر میں دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام ہمہ وقت جاری ہے۔حج کیلئے حرمین الشریفین آنے والے لاکھوں مردوخواتین میں نہ صرف ان کی مادری زبانوں میں قرآن پاک اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے بلکہ اسے پوری دنیا میں پہنچانے کی سعی کی جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں کتاب و سنت کی دعوت جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اس میں سعودی عرب کا کردار کلیدی نوعیت کاہے۔ مختلف اسلامی ممالک سے جو طلباء سعودی عرب میں تعلیم کی غرض سے آتے ہیں انہیں نہ صرف مفت کتابیں و رہائش فراہم کی جاتی ہے بلکہ انہیں سینکڑوںسعودی ریال وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم پاکستان کا ہی جائزہ لیں تو دور دراز کے دیہاتوں و علاقوں میں دیدہ زیب اور خوبصورت مساجد آپ کو نظر آئیں گی جہاں سے کلمہ توحید اور سنت رسولۖ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔یہ مساجد سعودی عرب کے مختلف اداروں کی امداد کے نتیجہ میں تعمیر ہوئی ہیں۔ بہت سی مساجد کے ساتھ مدارس بھی قائم کئے گئے ہیں جہاں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دی جارہی ہے اور قرآن پاک ان کے سینوں میں محفوظ ہو رہا ہے۔غرضیکہ سعودی عرب کی جانب سے ہر سطح پر پاکستان اور اہل پاکستان کے ساتھ خاص طور پر تعاون کیا جاتا ہے۔ سعودی مہم برائے پاکستانی عوام کے علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد محمد آل عثمانی کا یہ کہنا درست اور قابل تحسین ہے کہ سعودی عرب ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے خصوصی ہدایات ہیں کہ سعودی عرب زلزلے ،سیلاب اور جنگوں سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے ضمن میں نمایاں کردار ادا کرے۔ اس لئے ہم مسلم ممالک میں بحرانوں اور قدرتی آفات کے مواقع پر ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے اتحاد اور یک جہتی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ایمرجنسی ریلیف پروگرام کے خدوخال بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ”اس کے تحت قدرتی آفات سے متاثرین کو خوراک ،کپڑے ،شیلٹر ،پینے کا پانی ،زراعت کے لیے مدد ،گلہ بانی ،تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم اور صحت کے مراکز تعمیر کئے جاتے ہیں۔اسی طرح طبی مراکز کو ڈاکٹری آلات مہیا کیے جاتے ہیں اور مساجد کی تعمیرنو اورتزئین وآرائش کی جاتی ہے۔
سعودی عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھاکہ پاکستان میں زلزلے کے نتیجہ میں آب رسانی کا نظام بری طرح متاثر ہوا اور لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور تھے۔اس سے مختلف بیماریاں پھیل رہی تھیں۔اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے سعودی عرب نے متاثرہ قصبوں اور دیہات میں آب رسانی کے ذرائع تعمیر کئے اور کنویں کھدوائے ہیں جن سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد فائدہ اٹھا رہی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے یہ تمام رفاہی وفلاحی منصوبہ جات قابل تحسین ہیں اور پوری پاکستانی قوم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور سعودی عرب کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تاہم پاکستان اور سعودی عرب کے عوام لاالہ الااللہ کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوششیں کسی صور ت کامیاب نہیں ہوں گی۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے مرکزاس ملک کو اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے محفوظ رکھے اور دین اسلام کی سربلندی اور کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
تحریر: مصعب حبیب