جدہ (ویب ڈیسک) سعودی فرمانرواہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے خصوصی حکم پر نیوزی لینڈ کے شہر کرسٹ چرچ کی مسجد میں دہشت گردی سے شہید ہونے والی فیملیوں کے 200 افراد اس سال حج سیزن میں سعودی حکومت کے مہمان ہونگے اور حج کی سعادت حاصل کریں گے۔ اسکا اعلان سعودی وزیر اسلامی امور شیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز آل شیخ نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کو حج سیزن میں مہمان بنانا سعودی عرب کی ان کاوشوں کا حصہ ہے جو وہ ہر قسم کی دہشت گردی کو شکشت دینے کے لئیے کر رہا ہے۔ سعودی وزیر نے کہا کہ انکی وزارت نیوزیلینڈ میں سعودی سفارت خانے سے رابطہ میں ہے تاکہ مہمانوں کو ہر وہ چیز میسر ہو جو وہ انہیں حج کرنے کے لئیے درکار ہو۔ واضح رہے کہ نیوزی لینڈ سانحے میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 9 ہوگئی ہے، جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس سانحے میں شہید ہوئے ہیں۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے سید اریب احمد، نعیم راشد اورا نکا بیٹا طلحہ، سہیل شاہد، سید جہانداد علی، محبوب ہارون، ذیشان رضا، ان کے والد غلام حسین اور ان کی والدہ کرم بی بی بھی شامل ہیں۔سید اریب احمد: کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا سے نیوزی لینڈ جانے والے سید اریب احمد کے بارے میں ان کے ایک رشتے دار محمد مظفر نے بتایا کہ’وہ ہمیشہ سے ایک دین دار لڑکا تھا۔ نماز کی پابندی کرتا اور پڑھائی اس کے لیے پہلی ترجیح تھی‘۔اریب نے حال ہی میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے طور پر اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اس کے بعد بہتر مستقبل کی تلاش میں نیوزی لینڈ روانہ ہوئے ۔ وہ اپنے والدین کے ایک ہی بیٹے تھے اور ان کی ایک چھوٹی بہن ہیں۔نعیم راشد اور طلحہ راشد: پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ نعیم راشد کی بہادری اس اندوہناک واقعے میں قیمتی انسانی جانیں بچانے کا سبب بنی۔ عینی شاہدین کے مطابق ان کا 21 سالہ بیٹا طلحہ مارا جاچکا تھا لیکن اس کے باجود انہوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔نعیم ایک عرصے سے نیوزی لینڈ میں ایک استاد کےفرائض انجام دے رہے ہیں۔ انکا بیٹا 11 سال کا تھا جب ان کے اہل خانہ نیوزی لینڈ گئے تھے ۔ حال ہی میں اسے نئی جاب ملی تھی اور اس کی شادی کے معاملات بھی چل رہے تھے، تاہم وہ شہادت کے منصب پر فائز ہوگئے۔نعیم کے رشتے دار خورشید عالم کے مطابق انہوں نے ویڈیو میں دیکھا کہ نعیم مسلح شخص سے الجھ رہے ہیں، وہ ہمیشہ سے ایک بہادر شخص ہیں۔محمد عمران خان :نیوزی لینڈ میں محمد عمران خان کے ریستوران کے باہر ایک کارڈ بورڈ پر ’بند ہے‘ لکھا ہوا ہے۔ وہیں رکھے کچھ پھول دو روز قبل ہونے والے اندوہنا ک واقعے کی داستان سنارہے ہیں۔عمرا ن خان ایک بھارتی مسلم تھے جو دہشت گردی کی اس کارروائی میں نشانہ بنے ۔ ان کے قریب ہی واقعہ ایک اسٹور کے مالک اور ان کے دوست جے من پٹیل کا کہنا ہے کہ جب یہ سانحہ ہوا تو انہوں نے ہی ریستوران بند کروایا اور چابیاں سنبھالیں۔ عمران ان کے دوست تھے اور دونوں نے نیوزی لینڈ میں قیام کے دوران بارہا ایک دوسرے کی مدد کی تھی۔ عمران کا ایک ۱۱ سال کا بیٹا بھی ہے۔حسنہ احمد: فرید احمد اپنی 45 سالہ اہلیہ حسنہ احمد کے ہمراہ النور مسجد میں موجود تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔۔ حملہ آور نے حملے کی ویڈیو لائیو کی تھی جس کے سبب وہ بعد میں دیکھ پائے کہ کس طرح ان کی شریک زندگی خون میں نہا گئیں۔فرید کا کہنا ہے کہ وہ رفع حاجت کے لیے اپنی اہلیہ سے جدا ہوئے تھے کہ یہ خونی کھیل شروع ہوگیا اور وہ جہاں تھے وہیں رہ گئے۔ بعد میں جب وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچے تو وہ اس دنیا سے جا چکی تھیں۔ موقع پر موجود پولیس اہلکار نے ان کی شہادت کی تصدیق کی تھی۔اس ہولناک واقعے کے باوجود فرید نے نیوزی لینڈ چھوڑ کر جانے سے انکار کیا ہے۔ ان کا آبائی وطن بنگلہ دیش ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ بہت اچھا ملک ہے اور وہ یہیں رہنا چاہتے ہیں۔فرید نے یہ بھی کہا کہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان جو ہم آہنگی ہے ۔