سعودی عرب:جنسی کاروبار کیلئے فروخت کی گئی بھارتی خاتون بازیاب
ممبئی: ملازمت کا جھانسہ دے کر سعودی عرب میں جنسی کاروبار کے لیے فروخت کی گئی بھارتی خاتون کو بازیاب کرالیا گیا۔دوسری جانب یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ بھارت میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد اپنے کاروبار کو مزید وسعت دے رہے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ نے بھارتی عہدیداروں کے حوالے سے بتایا کہ خاتون کو ملازمت کا جھانسہ دے کر فروخت کرنے والے ایک ایجنٹ کو بھارتی ریاست گجرات اور ایک کو ممبئی سے گرفتار کرلیا گیا، جب کہ دیگر ایجنسٹس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ایک سال قبل 35 سالہ خاتون کو ماہانہ 600 ڈالر یعنی 40 ہزار بھارتی روپے تنخواہ پر ملازمت دلوانے کا وعدہ کرکے دبئی لے جایا گیا تھا۔خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کے وزیر مملکت نے بتایا کہ خاتون کو بعد ازاں سعودی عرب کے شہر ریاض میں ایک اور مالک کو فروخت کردیا گیا، جہاں انھیں تشدد اور ریپ کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔وزیر مملکت کے مطابق بازیاب کرائی گئی خاتون کا ریاست گجرات کے ایک ہسپتال میں علاج جاری ہے۔انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والے ایک سماجی کارکن کے مطابق خلیجی ممالک کے لیے بھارت کی جنوبی ریاستوں آندھرا پردیش، تلنگانہ، تامل ناڈو اور کیرالہ سے لوگوں کی زیادہ تر اسمگلنگ کی جاتی ہے، جب کہ دیگر ریاستوں سے ایسے کیسز شاذ و نادر ہی سامنے آتے ہیں۔
ریاست گجرات کے وزیر تعلیم بھپندرا سنھ چاداسمہ کے مطابق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خلیجی ممالک کے لیے زیادہ تر بھارت کی جنوبی ریاستوں سے انسانی اسمگلنگ کی جاتی ہے، مگر ہم گجرات میں اس کام میں ملوث دیگر افراد کی تلاش کر رہے ہیں اور پولیس نے ایجنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔بازیاب کرائی گئی خاتون کا تعلق ریاست گجرات کے ضلع ڈھولکا سے ہے، جہاں کی انتظامیہ خواتین کی اسمگلنگ کے حوالے سے مزید تفتیش کر رہی ہے۔ڈھولکا کے ضلعی دفتر کے ڈپٹی آفیسر رتو راج دیسائی کے مطابق انہیں پتہ چلا ہے کہ مزید کئی خواتین کو بھی خلیج ممالک میں اسمگلنگ کے بعد فروخت کیا گیا ہے، یہ ان کے لیے نئی معلومات ہے۔خیال رہے کہ جنسی کاروبار کے لیے فروخت کی گئی ریاست گجرات کی یہ دوسری خاتون ہیں، جنھیں حکومت نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں بازیاب کروایا ہے۔
سماجی کارکنان کے مطابق اندازاً 60 لاکھ بھارتی افراد خلیجی ممالک بحرین، کویت، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور عمان میں گھریلو ملازمین ہیں، جن میں سے زیادہ تر افراد کو استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔