تحریر : حبیب اللہ سلفی
سعودی عرب کی زیر قیادت دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے 34اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے جس میں پاکستان، ترکی، مصر،انڈونیشیا، اردن، متحدہ عرب امارات، سوڈان، تیونس، قطر اور ملائشیا سمیت اسلامی دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔ اس اتحاد کا آپریشنل مرکز سعودی دارالحکومت الریاض میں ہو گاجہاں سے نہ صرف دنیا بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مانیٹرنگ کی جائے گی بلکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے مشترکہ طور پر عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ سعودی عرب میں مسلمان ملکوں کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں دہشت گردی کی بیخ کنی اور عالمی امن وسلامتی کو یقینی بنانے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک میں باہمی رابطوں کو مزید بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ریاض میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ انسانیت کے خلاف وحشیانہ جرائم اور فساد فی الارض ناقابل معافی جرائم ہیں جو نہ صرف انسانی نسل کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی اور انسانی عزت و احترام کے لیے بھی نہایت خطرناک ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تمام مسلمان ممالک سعودی عرب کی قیادت میں متحد ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کی جائے گی۔
پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی سمیت مسلم دنیا کے اہم ممالک اس وقت اندرونی سازشوں کا شکار ہیں اور دشمنان اسلام’ مسلم ملکوں و معاشروں میں امن و امان کی بربادی کیلئے تکفیر اورخارجیت کا فتنہ پروان چڑھانے کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کر رہے ہیں۔سعودی عرب میں مساجد وامام بارگاہوںمیں خودکش حملے ہوں، پاکستان میں افواج، عسکری اداروں ، مساجداور پبلک مقامات پر بم دھماکے ہوں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں اس نوع کی دہشت گردی’ سب کے پیچھے دشمن قوتوںکاہاتھ کارفرما نظر آتا ہے ۔ مغربی ممالک خود ہی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں افواج و دفاعی اداروں پر حملے کروائے جاتے ہیں’ بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے کیلئے ہر طرح کی مدداور وسائل فراہم کئے جاتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ بعد انہی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے بہانے مسلم ملکوں میں مداخلت کر کے انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ بہت بڑی سازش ہے جو پچھلے کئی برسوں سے کی جارہی ہے۔پہلے نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر حملہ آوروں کا تعلق مختلف مسلم ملکوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور پھر صلیبی ملکوں کا بڑ ااتحاد بنا کر افغانستان پر چڑھائی کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ عراق میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ دس لاکھ سے زائد عراقی مسلمانوں کو شہید کر کے اپنی پسند کے لوگوں کو وہاں اقتدار دلوایا اور بعد میں ٹونی بلیئر جیسے برطانوی حکمران معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں کہ عراق پر حملہ کیلئے جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ثابت نہیں ہو سکے اور اسی حملہ کے نتیجہ میں داعش وجود میں آئی ہے۔ پہلے نائن الیون حملہ کو بنیاد پر دو مسلم ملکوں میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خوفناک سلسلے پروان چڑھائے گئے اور اب داعش کے خاتمہ کے نام پر شام میں بے گناہ سنی مسلمانوںکا خون بہایا جارہا ہے۔
امریکہ کی زیر قیادت اتحادیوں کو داعش کی دہشت گردی ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ فرانس میں ہونے والے دہشت گردی جیسے واقعات کی ہر مسلمان پرزور مذمت کرتا ہے ۔ کوئی مسلمان ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ جولوگ بھی ان حملوں کیلئے استعمال ہوئے ہیں وہ درحقیقت انہی کے کارندے ہیں اور ان کے ہاتھوںمیں کھیل کر مغربی ایجنڈے کی تکمیل میں معاونت کر رہے ہیں۔ کسی بھی دہشت گردانہ کاروائی کے بعد دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ ان حملوں کا فائدہ کس کو ہوا ہے؟۔اس کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔مختلف مغربی ملکوں میں حملوں کے بعد مغرب میں اسلام کی تیزی سے پھیلتی ہوئی دعوت کو شدید نقصان پہنچا، مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا اور دشمنان اسلام کو شام جیسے ملکوں پر داعش کے بہانے راسخ العقیدہ مسلمانوں پر بمبار ی کا موقع مل گیا۔ جب ان حملوں کا مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہی نہیں تو وہ ایسے حملوں میں کیونکر ملوث ہو سکتے ہیں؟داعش کا ہوا کھڑ اکر کے اس کی بھرتی کیلئے بھی سازش کے تحت راستے ہموار کئے جارہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی میدانوں میں فتح حاصل ہوئی ہے ‘ کفار کی جانب سے مسلم معاشروں میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کو پروان چڑھایا گیا ۔حال ہی میں افغانستان میں اتحادیوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تواس خطہ میں بھی داعش جیسی تنظیموں کی آبیاری کی جارہی ہے تاکہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، دہشت گردی وتخریب کاری کا سلسلہ چلتا رہے اور اسلام دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلم ممالک کے ایک بڑے اتحاد اور مسلم معاشروںمیں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں کیخلاف مشترکہ طور پر عملی اقدامات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والا فوجی اتحاد جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 34اسلامی ممالک شامل ہیں’انتہائی خوش آئند اور پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب پہلے بھی دہشت گردی کے اس فتنہ کو ختم کرنے کیلئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے نیٹ ورک بکھر کر رہ گئے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب میں بھی دہشت گردوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئی ہیں اور سعودی فورسز کو اہم کامیابیاں حاصل ہور ہی ہیں۔ امام کعبہ الشیخ عبدالعزیز سمیت دنیا بھر کے علماء کرام نے مسلم ملکوں میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیا او ر داعش جیسی تنظیموں کے نظریات کو گمراہ کن کہتے ہوئے نوجوان نسل کو ان سے بچانے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالہ سے یقینی طور پر نظریاتی محاذ پر بھی سرگرم کردار ادا کیا جائے گا ۔ بہرحال فوجی اتحاد میں پاکستان اور سعودی عر ب کا کردار سب سے اہم دکھائی دیتا ہے۔
آپریشن ضرب عضب میں اللہ تعالیٰ نے پاکستانی فوج کو جن کامیابیوں سے نوازا ہے’ اس کے فوائد ان شاء اللہ دیگر مسلم دنیا کو بھی ہوں گے اور دوسرے اسلامی ملکوں سے بھی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔سعودی عرب کے نائب ولی عہد او روزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح طورپر کہا ہے کہ مسلم ممالک کا یہ اتحادصرف داعش کیخلاف نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کی شکل میںپھیلنے والی برائی میں ملوث ہرگروپ کے خلاف پوری قوت سے جنگ لڑی جائے گی۔ ریاض میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کیلئے امریکہ و یورپ، چین اور ایران سمیت سب کو کوششیں کرنی چاہئیں ۔ ان ممالک کے اختلافات کے سبب داعش کو فائدہ اور طاقت ملی ہے۔اسی طرح سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرسے پیرس میں میڈیا کے نمائندوںنے جب اس اتحاد کے قیام اور مقاصدسے متعلق سوالات پوچھے تو ان کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کا یہ اتحاد داعش کے خلاف جنگ کیلئے معلومات کا تبادلہ کرے گا،فورسز کو تربیت دے گا، انھیں مسلح کرے گا اور ضروری ہوا توزمینی فوج بھی بھیجی جاسکتی ہے۔
اس سلسلہ میں کوئی چیز بھی خارج ازامکان نہیں ہے تاہم اس کا انحصار مسلم ممالک کی جانب سے درخواست اور ضرورت پر ہے۔سعودی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیا اتحاد سنی یا شیعہ نہیں ۔ دہشت گرد خواہ کسی بھی فرقہ اور گروہ سے تعلق رکھتے ہوں روئے زمین پر تباہی اور فساد پھیلانے والوں کیخلاف بلا تفریق کارروائی ہو گی۔ سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک کا یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پوری قوت صرف کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی ملکوں کے اتحاد کی کامیابی کیلئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھیں اور اس حوالہ سے کسی قسم کے بیرونی دبائو کو خاطر میں لانے کی بجائے مسلم ملکوں کے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ آسمانوں سے رحمتیں و برکتیں نازل کرے گا اور مسلم امہ کو کامیابیوں سے نوازے گا۔
تحریر : حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005