اسلام آباد(ایس ایم حسنین) سعودی عرب میں انسانی حقوق انڈیکس میں بہتری کیلئے نابالغ لڑکوں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ ان تین نابالغ شیعہ لڑکوں کو حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کے الزام میں 2012 میں گرفتارکیا گیا تھا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سعودی عرب کی انسانی حقوق کے کمیشن نے جاری کردہ اعلامیے میں بیان دیا کہ علی النمر، داؤد ال مرحون اور عبد اللہ کی سزا موت کالعدم قرار دے دی گئی اور ان کی سزا کو 10 ساک قید میں تبدیل کردی گئی۔ ایچ آر سی کے مطابق جتنا وقت وہ جیل میں گزار چکے ہیں وہ قید کا حصہ تصور ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ مجرمان 2022 تک اپنی سزائیں پوری کرنے کے بعد رہائی پا سکیں گے۔ تینوں نوجوانوں کو 2012 میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران دہشت گردی سے وابستہ الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا تب ان کی عمریں 18 سال سے کم تھیں۔ تینوں کا تعلق اقلیت شیعہ برادری سے ہے۔ واضح رہے کہ ریاض نے گزشتہ برس اپریل میں قانونی طور پر نابالغ افراد کے لیے پھانسی کی سزا ختم کردی تھی۔ تاہم انسداد دہشت گردی قوانین میں کم عمر افراد کو پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت کی شرح سعودی عرب میں تھی تاہم گزشتہ برس پھانسیوں کی تعداد میں ’زبردست‘ کمی واقع ہوئی۔ ایچ آر سی کے مطابق 2020 میں 27 افراد کو پھانسی دی گئی ، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 85 فیصد کم ہے۔ ایچ آر سی نے گزشتہ برس اپریل میں یہ بھی کہا تھا کہ سعودی عرب عدالت کے حکم پر کوڑے مارنے کی سزا کو بھی ختم کر رہا ہے۔
برطانیہ میں مقیم ریپریو نامی گروپ کی ڈائریکٹر مایا فوفا نے ٹوئٹر پر کہا کہ علی کے لیے عمدہ خبر، جس نے جمہوریت کے حامی مظاہرے میں شرکت کی اور اسے سعودی عرب میں موت کی سزا سنائی گئی، جب وہ صرف 17 سال کا تھا‘۔