counter easy hit

سعودی عرب اور ایران تنازعہ لمحہ فکریہ ہے

Saudi Arabia,Iran Conflict

Saudi Arabia,Iran Conflict

تحریر : عبدالرزاق
ایک ایسے وقت جب اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے نت نئی نئی سازشوں کے جال بچھا رہے ہیں تو ان حالات میں مسلمانوں کی صفوں میں اتفاق،اتحاد اور باہمی یک جہتی کا فروغ انتہائی ناگزیر ہے لیکن بد قسمی سے اس کے بر عکس مسلمان باہمی عداوت اور انتشار کا شکار ہیں اور یوں وہ دشمن کے بچھاے ہوئے جال میں کلی طور پر جکڑ چکے ہیں اور باہم بر سر پیکار ہیں۔

شیطانی قوتوں کا مطمع نظر ہے کہ مسلمانوں کو باہمی منافرت کا شکار کر کے تقسیم در تقسیم کر دیا جائے اور پھر ان کو معاشی طور پر اس قدر بد حال کر دیا جائے کہ وہ اپنے حقیقی نظریئے کے پھیلاو کے قابل ہی نہ رہیں اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلما ن ممالک ان کی حسب منشا اقدامات میں مشغول ہیں اس احساس سے قطعی مبرا ہو کر کہ یہ اقدامات ان کی سا لمیت کے لیے کس قدر خطرناک ہیں۔اس ضمن میں سعودی عرب اور ایران کے تنازعہ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

سعودی عرب میں ایک شیعہ رہنما النمر کو دیگر تنتالیس افراد کے ساتھ سزائے موت دینے کی دیر تھی کہ ایران میں گویا بھونچال برپا ہو گیا۔مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور اس واقعہ کی بنیاد پر خوب احتجاج کیا۔جب احتجاج سے بھی دل کو تسلی نہ ہوئی تو مظاہرین نے تہران میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور اسے آگ لگا دی۔سفارت خانے کو آگ لگنے کی دیر تھی کہ سعودی عرب میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔سعودی حکومت نے ایرانی سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم صادر فرما دیااور ساتھ ہی ایران سے تعلقات منقطع کر دیے۔اور پھر سعودی عرب کی پیروی میں کویت،بحرین اور سوڈان نے بھی ایران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔

Iran Protest

Iran Protest

سعودی حکومت کا موقف ہے کہ شیعہ رہنما النمر کو عقیدہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسے ریاست مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے اور القاعدہ سے روابط کی بنا پر سزا دی گئی ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ النمر ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا۔اس بحث میں الجھے بغیر کہ کس کا موقف درست ہے اور کس کا غلط۔ سوچنے کا امر یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا پر دہشت گردی کے گہرے بادل چھائے ہو ے ہیں۔ایشیا سے لے کر یورپ تک داعش جیسی خطرناک تنظیم کے چرچے ہیں اور دہشت گر دنیا کے چمن کو اجاڑنے پر کمر بستہ ہیں سعودی عرب اور ایران کا باہم بر سر پیکار ہونا کوئی نیک شگون نہیں اور اس رسہ کشی کا سب سے خطرناک پہلویہ ہے کہ اس تنازعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے اور اسے شیعہ سنی مسلہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے جو نہ صرف سعودی عرب اور ایران کے لیے تباہ کن ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ایران شیعہ مسلک سے منسلک افراد کا نمائندہ ملک ہے اور اس سے متصل ممالک میں بھی شیعہ قابل ذکر تعدادمیں موجود ہیں اور اگر خدانخواستہ فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تو تمام مسلم ممالک کا اس آگ کی لپیٹ میں آنے کا خدشہ ہے اس لیے ابھی وقت ہے کہ سعودی عرب اور ایران جتنی جلدی ممکن ہو اس تنازعہ کی سلگتی چنگاری پر قابو پانے کی کوشش کریں۔

ابھی تو کچھ ہی روز گزرے ہیں کہ سعودی عرب کی کاوشوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے چونتیس اسلامی ممالک کا اتحاد تشکیل پایا ہے اور راقم نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ایران کے بغیر اس اتحاد کی پائیداری کی ضمانت نہیں ہے اور اب دکھائی ایسا ہی دے رہا ہے کہ اگر سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کا رخ مذید کشیدگی کی جانب مڑ گیا تو یہ اتحاد اپنی افادیت کھو دے گا جو یقینی طور پر مسلمانوں کے لیے کوئی خوش کن صورتحال نہیں ہے۔ایران کو اپنے طرز عمل پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کیونکہ اس کی جارحانہ حکمت عملی سے لامحالہ نقصان مسلم ممالک کا ہی ہو گا۔دوسری جانب وہ مسلم ممالک جن میں دہشت گردی نقطہ عروج کو چھو رہی ہے ان میں بھی سعودی عرب تنازعہ کو لے کر بڑی تشویش پائی جاتی ہے جن میں سر فہرست پاکستان ہے ۔سعودی عرب سے پاکستان کے دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں۔

سعودی عرب پاکستان کا محسن ملک ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ پاکستان کی خیر خواہی کا دم بھرتا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ایران ہے جو پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور اس سے بھی پاکستان کے تعلقات کی تاریخ تابناک ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو دو برادر اسلامی ملکوں کی کشیدگی کی وجہ سے تشویش لاحق ہے۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت ہے جس کی بنا پر اسے اسلامی دنیا میں ممتاز حیثیت حاصل ہے ۔ اب یہ پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دو اسلامی ملکوں کے تنازعہ کو حل کروانے میں کلیدی کردار ادا کرے۔

چونکہ پاکستان کے تعلقات سعودیعرب سے مثالی نوعیت کے ہیں اور ایران بھی قابل اعتماد دوست ہے تو پاکستان کو یہ مسلہ حل کروانے اور دونوں ممالک کی باہمی غلط فہمیاں دور کروانے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔تا کہ کشیدگی کی یہ فضا جتنی جلد ممکن ہو ختم ہو سکے ۔ جبکہ ان ممالک کے درمیان جنم لے چکی کشیدگی کا خاتمہ نہ صرف سعودی عرب اور ایران کے لیے بلکہ پاکستان کے لیے بھی خوش آئند ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ حالیہ چپقلش پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون کا بیان بھی منظر عام پر آیا ہے جنہوں نے شیعہ رہنما سمیت تنتایس افراد کی موت پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اس سے اقوام متحدہ کا مسلمانوں کے حوالے سے دہرا معیار کھل کر سامنے آیا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کوبنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے اکابرین کی موت تو نظر نہیں آتی جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے جبکہ ان کو محض اس لیے عتاب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے درد دل رکھتے ہیں اوراقوام متحدہ کی نگاہیں ان مناظر کو دیکھنے سے قاصر ہیں اور جہاں تھوڑی سی بے احتیاطی سے اور کسی ایک فریق کی طرف داری سے شیعہ سنی فسادات بھڑک سکتے ہیں وہاں دخل اندازی ضروری ہے۔

اقوام متحدہ کے علاوہ امریکی وزیرہ خارجہ جان کیری نے بھی اپنے ایک بیان میں دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے پر زور دیا ہے۔ان تمام حالات کو دیکھتے ہوے سعودی عرب اور ایران کو دانش مندی کا ثبوت دیتے ہو ے اپنے مسائل کو فوری حل کرنے پر زور دینا چاہیے تاکہ اس تنازعہ کی بدولت امت مسلمہ پر تشویش کے جو با دل چھائے ہوے ہیں وہ چھٹ سکیں۔

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبدالرزاق
03360060895