تحریر:ممتاز حیدر
سعودی عرب میں دہشت گردی کے جرم میں 47 افراد کے سرقلم کر دیئے گئے جن میں ایک سکالر نمر باقر النمر بھی تھے جو عرف عام میں شیخ نمر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شیخ نمر ایک شیعہ عالم تھے اور ان کا سرقلم کرنے پر سعودی عرب اور ایران کے کے تعلقات میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایران میں سعودی سفارتخانہ نذرآتش کر دیا گیا ہے اور جواب میں سعودی عرب نے ایرانی سفیر کو ملک بدر کر دیا ہے۔ شیخ نمر 1959ء میں پیدا ہوئے۔ 15 اکتوبر 2014ء کو سپیشل کریمنل کورٹ کی طرف سے شیخ نمر کو سزائے موت سنائی گئی۔ ان پربیرونی ممالک کو سعودی عرب میں مداخلت کی دعوت دینے، سعودی فرمانرواؤں کی نافرمانی اور سکیورٹی فورسز کے خلاف ہتھیار اٹھانے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے جو ثابت ہونے پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ اور گزشتہ روز 2جنوری 2016ء کو ان کی سزا پر عملدرآمد کر دیا گیا۔
شیخ نمر باقر النمر اور دیگر کی سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں۔ مشتعل مظاہرین نے تہران اور مشہد میں مشتعل افراد نے سعودی قونصل خانے کو آگ لگا دی۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی اور سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد بحرین اور سوڈان نے بھی ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایرانی سفیروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ بحرین اور سوڈان کے بعد کویت نے بھی ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔پاکستان میں عرب ممالک کے سفیروں کی کونسل نے تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانہ پر حملہ’ اس کو نذر آتش کرنے اور مشہد میں سعودی عرب کے قونصلیٹ پر حملہ کر کے اسے آگ لگانے کے واقعات کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی سفارتی مشن کو توڑ پھوڑ اور تشدد کا نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین’ اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے معیار کی خلاف ورزی ہے۔ کونسل نے سعودی عرب کے خلاف حقائق کے برعکس ڈس انفارمیشن پھیلانے کی میڈیا کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا اور توقع ظاہر کی کہ میڈیا ڈس انفارمیشن پھیلانے سے گریز کرے گا اور مستند ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر خبریں نشر اور شائع کرے گا۔
اقوام متحدہ میں سعودی مشن نے کہا ہے سعودی عرب نے سزائے موت کے تمام مجرموں کو شفاف مقدمے کی سہولت فراہم کی، سزائیں نسل اور فرقے کی تفریق کے بغیر دی گئیں۔ سعودی مندوب نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی مون کے تحفظات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا یو این سیکرٹری جنرل کے بیان سے دکھ ہوا۔ اقوام متحدہ میں سعودی مندوب کا کہنا تھا ایران سے سفارتی تعلقات کے خاتمے کے بعد یمن اور شام میں امن عمل کو نقصان پہنچنے نہیں دیا جائے گا۔ ترکی کی حکومت نے سعودی عرب اور ایران سے مطالبہ کیا ہے وہ سفارتی کشیدگی میں کمی لے کر آئیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ایران پر زور دیا ہے وہ سفارت خانوں کی سکیورٹی کو یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے سفیر عبداللہ المعلومی کا کہنا ہے ایران سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ سعودی سفیر نے کہا ہماری ایران کے ساتھ پیدائشی دشمنی نہیں اور یہ صرف ایرانی حکومت کے رویئے کی وجہ سے ہے۔ ایران دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے تو تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ بانکی مون نے کشیدگی کم کرنے کیلئے خصوصی مندوب برائے شام اسٹیفن دے مستورا کو ریاض اور تہران روانہ کر دیا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی پر تشویش ہے تاہم اس تنازع پر متوازن پالیسی اختیار کریں گے۔پاکستان کے سیاسی و مذہبی رہنمائوں اورعسکری دانشوروں نے سعودی عرب میں پھانسیوں کو انکا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانہ کو جلانا انتہائی تشویش ناک ہے۔ پھانسیوں کے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بجائے سعودی عدالتوں کے فیصلوں کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔ترکی اور پاکستان اس صورتحال پر الگ تھلگ رہنے کی بجائے سعودی عرب ایران کشیدگی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کریں۔ دو اسلامی ممالک میں کشیدگی ختم ہونی چاہئے اس سے خطہ پرسکون ہو گا اور ہم آہنگی بڑھے گی۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ سعودی حکومت نے جن لوگوں کو سزائے موت دی ہے ان میں صرف ایک شیعہ ہے۔ ویسے بھی یہ سعودی عرب کا داخلی معاملہ ہے جس طرح ایران میں انقلاب ان کا داخلی معاملہ تھا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلم امہ بین الاقوامی سازش کا شکار ہو ر ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستیں ذمہ دار ہوتی ہے کہ اس قسم کے واقعات سے فرقہ ورانہ فسادات کی روک تھا م کر سکے۔ پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی موجودہ صورتحال میں مسلم امہ کے مفاد میں نہیں ہے۔
امت مسلمہ اس وقت ایک بحران کی حالت میں ہے اور ایسے وقت میں دو مسلم ممالک کے درمیان کشیدگی ساری امت میں بے چینی بڑھانے کا سبب بن گئی ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے تجویز پیش کی کہ وزیراعظم محمد نوازشریف سعودی عرب، ایران کے مابین کشیدگی کو ختم کرانے کیلئے پیش رفت کریں اور اس سلسلہ میں فوراً آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ سعودی عرب میںشیعہ رہنمائوں کو سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد دنیا بھر میں شیعہ کمیونٹی کا احتجاج اور تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانہ کو جلانا انتہائی تشویش ناک ہے۔ان واقعات سے عالم اسلام میں دراڑ مزید گہری ہوگئی ہے جس کا فائدہ اسلام دشمن قوتیں اٹھائیں گی۔جماعت الدعوة کے مرکزی رہنماحافظ عبدالرحمان مکی نے کہا کہ سعودی عرب میں موت کی سزائیں ان کا داخلی معاملہ ہے۔ اس مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی بجائے سعودی عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ بیرونی قوتیں مسلمان ملکوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کرنا چاہتی ہیں۔
ہمیں دشمنان اسلام کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے انہیں ناکام بنانے کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ سزائوں کو جذباتیت کا رنگ دینے کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے اور کسی قسم کے اشتعال انگیز ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سفارتخانوں کو جلانے اور نقصان پہنچانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں اختلافات ختم کروانے کے لئے میاں نواز شریف کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ،سعودی عرب میں دی جانے والی پھانسیاں ان کا اندرونی معاملہ ہے۔47لوگوں کو سزا دی گئی ہے ، 43 سنی ہیں جبکہ 4شیعہ ہیں لیکن سارے سعودی ہیں،کسی دوسرے ملک کو سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر نی چاہیے۔ ہم تہران میں سعودی عرب کا سفارت خانہ جلانے کی مذمت کرتے ہیں، کسی بھی ملک کا سفارتحانہ جلانا ملک جلانے کے برابر ہو تا ہے۔
جنرل(ر)جمشید ایاز نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران دونوں مسلم ممالک ہیں ان کی کشیدگی سے اسلام دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچے گا۔ بات چیت سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔پاکستان کو آگے بڑھ کر دونوں کے درمیان صلح کرانی چاہیے۔برگیڈئیر (ر)اسلم گھمن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان خراب تعلقات کے حل کیلئے مسلم دنیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔جے یو پی کے مرکزی صدر پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ دونوں ممالک کو چاہئے کہ وہ ایشوز کو کسی کشیدگی کی طرف لیجانے یا پھر کوئی جنگی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر ایک با مقصد ٹیبل ٹاک سے مسئلے کو حل کریں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر اس صورت حال سے مسلم ممالک اغیار کے لوگ بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جس کا امہ کو بہت زیادہ نقصان ہو گا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملات کو بات چیت سے حل کیا جائے۔
تحریر:ممتاز حیدر
برائے رابطہ:03349755107