تحریر: محمد شاہد محمود
سعودی شہر حفرالباطن کے شاہ خالد ملٹری سٹی میں چودہ فروری سے جاری پاکستان سمیت اکیس مسلمان ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں شمال کی گرج جمعرات کو اختتام پذیر ہو گئیں۔ مشقوں میں غیرسرکاری فورسز اور دہشت گرد جماعتوں کے ساتھ نمٹنے کے طریقہ کار کی تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی جبکہ روایتی آپریشنوں کے نمونے سے نسبتاً کم شدت کی کارروائیوں کی جانب منتقلی کی تربیت پر بھی زور دیا گیاا س کے علاوہ مشقوں میں فورسز کو طویل مسافت اور مدت کی مختلف شکلوں میں کام کرنے کی تربیت بھی دی گئی۔
سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی مشقوں پاکستان، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، سینیگال، سوڈان، کویت، مالدیپ، مراکش، چاڈ، تیونس، جزائرالقمر، جیبوتی، سلطنت اومان، قطر، ملائیشیا، مصر، موریتانیہ، مارشیس اور دیگر ممالک کی افواج نے حصہ لیا۔ شریک ممالک کی تعداد کے اعتبار سے انہیں دنیاکی سب سے بڑی فوجی مشقیں قراردیاگیا۔ فوجی مشقوں کے آخری روز آرٹلری، انفنٹری، ٹینک، ایئرڈیفنس اور نیول فورسز نے حصہ لیا۔ مشقوں کے دوران ایئرڈراپ، اسلحہ کی نقل و حمل اور دیگر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا۔
مشقوں کی اختتامی تقریب میں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، وزیراعظم پاکستان نواز شریف ،پاک فوج کے سربراہ جنرل رحیل شریف،خارجہ امورکے بارے میں وزیراعظم کے معاون حصوصی طارق فاطمی ، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، سوڈانی صدر محمد عمر البشیر، سینیگال کے صدر ماکی صال، چاڈ کے صدر اور مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف ادریس دیبی انتو، موریتانیہ کے محمد ولد عبدالعزیز، جیبوتی کے اسماعیل عمر جیلہ، جزائرالقمر کے ڈاکٹر اکیلل ظنین، مراکش کے وزیراعظم عبدالالہ بن کیران، بحرین کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد آل خلیفہ، مورشیس کے وزیر برائے مذہبی امور شوکت سودھن،سلطنت اومان کے وزیر برائے امور دفاع شہزادہ فیصل بن الحسین، بدر بن سعود بن حارب البوسعیدی،ملائیشیا کے آرمی چیف ذولکفلی محمد زین اور مالدیپ کے وزیر دفاع آدم شریف نے شرکت کی۔
خفر الباطن میں جمع ہونے والے اسلامی دنیا کے سرکردہ قائدین نے شاہ سلمان سے الگ الگ بات چیت کی۔ فرداً فرداً ہونے والی ملاقاتوں میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے علاقائی امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ان فوجی مشقوں کے آخری روز جنگی طیاروں کی گھن گرج کے ساتھ ساتھ صحرا میں ٹینک بھاگ رہے تھے جبکہ آسمان بارود کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ خطے کی اب تک کی یہ سب سے بڑی فوجی مشقیں اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہیں۔سعودی عرب میں ”ناردرن تھنڈر” نامی یہ بڑی فوجی مشقیں بارہ روز سے جاری تھیں۔ تمام مہمانوں کو ایک اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا جبکہ اپاچی ہیلی کاپٹروں نے راکٹ فائر کرتے ہوئے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ ٹینکوں نے اپنے زمینی اہداف کو نشانہ بنایا جبکہ ہیلی کاپٹروں سے رسی کی مدد سے فوجیوں کی چھاپہ مار کارروائیوں کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔
سعودی افواج نے دوسرے ممالک کی افواج کے ساتھ مہارت اور فعالیت کو ہم آہنگ کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب کے بہترین اسلحہ کے ساتھ فوج موجود ہے۔ اس کے پاس اس وقت 75 ہزار فوجی اور 313 لڑاکا طیارے ہیں۔ ان مشقوں میں 21 ممالک کے 3 لاکھ سے زیادہ فوجیوں، ہزاروں ٹینکوں اور طیاروں نے حصہ لیا ہے۔مشقوں کے دوران اور اختتامی پریڈ میں پاک فوج نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مشقوں میں صرف پاکستان کے پائلٹ اور لڑاکا طیاروں نے فضائی مظاہرہ کیا۔ پاکستان کے جے ایف 17 تھنڈر طیارے اور شیر دل فارمیشن کی ٹیم فضائی مظاہروں کے روح رواں تھے جبکہ عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کمانڈو یونٹ ایس ایس جی کے جوانوں نے فضا سے زمین پر چھلانگ لگانے کا بھرپور مظاہرہ کر کے اپنی بہترین مہارت کا ثبوت دیا۔ سعودی عرب کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالرحمان البنیان کا تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ”اس خطے میں یہ عرب اور اسلامی افواج کی اب تک کی سب سے بڑی جنگی مشقیں ہیں۔” تجزیہ کاروں کے مطابق شاہ عبداللہ کی وفات اور شاہ سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سعودی عرب زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔
سعودی عرب کے بریگیڈیئر جنرل احمد العسیری کا رواں ہفتے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ جنگی مشقیں خطے میں ”دہشت گردی کی لعنت” سے نمٹنے کے لیے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ کسی بھی صورت ایران کے خلاف نہیں ہیں۔سعودی عرب نے ان جنگی مشقوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا، جب ایران کے ساتھ اس کی سفارتی کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ ان دونوں ملکوں نے اپنے سفارتی تعلقات بھی ختم کر رکھے ہیں جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دونوں ملک یمن اور شام میں بھی اپنی پراکسی جنگیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنرل احمد العسیری کا ان مشقوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ اس پینتیس رکنی اتحاد سے بالکل الگ ہیں، جس کا اعلان دسمبر میں کیا گیا تھا۔ دسمبر میں اس پینتیس رکنی اتحاد کا مقصد بھی دہشت گردی سے نمٹنا بتایا گیا تھا۔
حکام کے مطابق اس نئے اتحاد کا پہلا اجلاس رواں ماہ ہی کیا جائے گا اور اس کا پہلا باقاعدہ اجلاس بھی اسی مہینے ہوگا۔ حکام کی جانب سے یہ تو نہیں بتایا گیا کہ ان جنگی مشقوں میں کس ملک کے کتنے فوجی شریک تھے لیکن سعودی فوجیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی، مصری، کویتی اور سوڈانی فوجی دیکھے گئے ہیں۔سعودی عرب میں 21 اسلامی ممالک کی ”دہشت گردی و انتہا پسندی” کے خلاف مشترکہ فوجی مشقوں کو ”نیٹو” کی طرز پر اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے جس میں پاکستان کا کلیدی کردار ہوگا۔
وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور دیگر مسلمان ممالک سے ملاقاتوں کے دوران ”اسلامی فوجی بلاک” کا قیام زیر غور آیا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل نے سعودی سیاسی و عسکری قیادت سے مستقبل کے سیاسی و فوجی تعاون پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ فوجی مشقوں ”رعدشمال” میں پاکستان کی مسلح افواج کی شرکت غیر معمولی طورپر نمایاں تھی۔ اس شو میں پاکستان واحد بڑی فوجی قوت تھی جبکہ دیگر اسلامی ممالک کی سیاسی اہمیت ہے۔ سعودی سرزمین پر ہونے والی 21 اسلامی ملکوں کی مشترکہ فوجی مشقوں سے یہ اشارات دئیے گئے ہیں کہ پاکستان کے لئے سعودی عرب کی قومی سلامتی کو غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔
سعودی عرب کے صحرا میں فوجی مشقوں میں پاکستان کی شمولیت سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔سعودی چیف آف اسٹاف کا کہنا ہے کہ ان مشقوں سے جو مقاصد متوقع تھے وہ حاصل کرلیے گئے ہیں۔ شمال کی گرج مشترکہ فوجی مشقیں تھیں جن کا مقصد شریک افواج کے عناصر کی فنی اور لڑائی سے متعلق اہلیت کی سطح کو بڑھانا اور ترسیل اور اسٹریٹجک نقل حرکت کے منصوبوں پر عمل درامد کی مشق تھا۔ اس کے علاوہ خطے کے امن واستحکام کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے شریک ممالک کے افواج کے درمیان مشترکہ مشن کی صلاحیت پیدا کرنا شامل ہے۔ حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ سعودی عر ب میں مسلم ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں خوش آ ئند ہیں۔ مسلمان ملکوں کو دفاع کی طرح اپنی معاشی قوت کو بھی مضبوط بنانا چاہیے۔
تحریر: محمد شاہد محمود
shahidg75@gmail.com