تحریر : جاوید اختر جاوید، الریاض
شعر و ادب جذبات کے گلستاں سے تعبیر ہے احساسات کی چاندنی رات ہے تخیلات کی قوسِ قزاح ہے ایک قلمکار لفظوں سے وہی کام لیتا ہے جو مصور رنگوں سے اور موسیقار سروں سے لیتا ہے، شاعری تو ایک وسیلہ ہے جذبات کی ترسیل کا، جب رنگ باتیں کریں، خوشبو محوِکلام ہواور سر بولتے ہوں تو شعر تخلیق ہو رہا ہوتا ہے۔
آفتاب علی ترابی سمندر پار آواز میں ایک پراعتماد آواز ہے اس کے فکر وفن میں پاکستانی ثقافت کی روح پرواز کرتی ہے ، ان کی شاعری، بحروں کی موسیقی، قافیوں کی جھنکاراور ردیفوں کی تکرار کی وجہ سے کانوں میں رس گھولتی ہے یہ اسی کا طرہ امتیاز ہے۔
شعر کے متعلق کہا جاتا ہے از دل خیزد ہر دل ریزد یعنی شعر وہ کلام ہے جو دل سے نکلے اور دل میں اتر جائے، آفتاب علی ترابی کا شعر دل سے نکل کر دل کو چھوتا ہے جو محض خیال بندی اور خیال آرائی کا کرشمہ نہیں ہے اس کا تعلق حقائق سے ہے اور ترابی کے شعر کی حسن و خوبی کا معیار بلند اور اچھوتا ہے۔
آفتاب ترابی ایک قادرالکلام شاعر ہے اس نے شعر میں ریاضت کی ان کے اشعار میں عمومیت اور آفاقیت کا رنگ نمایاں ہے وہ نہ تو عوامی شاعر ہے نہ انقلابی وہ تو صرف شاعر ہے اور صرف شاعر ہی سب کچھ ہوتا ہے آفتاب ترابی جیسی روانی سے شعر کہنے والے کتنے ہیں اور کہاں ہیں وہ ایک البیلا شاعر ہے جو تغزل کی چھاؤں تلے چلا جا رہا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ وہ سب غزل گوؤں کا ساتھ ہونے کے باوجود اپنی فکر اور اسلوب میں دوسروں سے الگ تھلگ نظر آتا ہے۔
گویا وہ سب میں شامل بھی ہے اور سب سے الگ بھی، اس پر تخلیقی کیفیت ایک گھٹا ٹوپ بادل کی طرح طاری ہوتی ہے پھر یہ بادل موسلادھار برستا چلا جاتا ہے اور اس کا شعلہ ء تخلیق ہمیشہ فروزاں رہتا ہے، اسے آمد کے لئے کسی مخصوص لمحے کا انتظار نہیں رہتا اور مضامیں تو غیب سے اترتے چلے جاتے ہیں۔
آفتاب علی ترابی ایک طویل فنی سفر طے کرچکا ہے اس کے کلام میں مزدور کے پسینے کی شبنم چمکتی ہے اور کاشانہء دل میں وقت کی پرچھائیاں طوفاں خیز تلاطم پیدا کرتی ہیں زندگی کی امنگ اور ترنگ اس کے کلام میں جلترنگ پیدا کرتی ہے جو نالہء دل کا درپن ہے۔
آفتاب علی ترابی وطن کے گیت گاتا ہے، مظلوموں کے حوصلے بلند کرتا ہے وہ زندگی کی زلفیں سنوارنے میں اپنی انگلیاں خونچکاں اور سینہ فگار کرتا ہے ان کے پنجابی اور اردو کلام سے انتخاب پیشِ خدمت ہے،
میرے دل دے وچوں اے ڈر نہ جاوے
میرے اندر دا انسان مر نہ جاوے
نکے ہوندیاں جدھے وچ کھیڈدے ساں
تصور دے وچوں اوہ گھر نہ جاوے
۔۔
میرے لمسِ نظر کا معجزہ ہے
سخن کرنے لگی تصویر مجھ سے
فقط قیدی ہوں میں یوسف نہیں ہوں
نہ پوچھوخواب کی تعبیر مجھ سے
۔۔
آپ کی ہم آرزو کرنے لگے
دل جگر اپنا لہو کرنے لگے
پتھروں نے ریزہ ریزہ کر دیا
آئینے جب گفتگو کرنے لگے
۔۔
نہ جاوے رقیباں دے ویہڑے نہ جاوے
میرے تن دا بے شک پیا ماس کھاوے
میں بن کے رہواں اوہدے خواباں دا راکھا
مینوں اپنی اکھ دا جے سرما بناوے
۔۔
وہ جھلملاتے ستاروں کی بات کرتے ہیں
ہمارے شہر میں جگنو بھی کم نکلتے ہیں
ہمارے در پہ عدو آچکا ہے تیغ بکف
سو ہم بھی ہاتھ میں لے کر قلم نکلتے ہیں
اور
گذر جاؤ مسافر کی طرح تم
محبت رہگذر ہرگز نہیں ہے
تحریر : جاوید اختر جاوید،الریاض