تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے منگل کے روز ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ ریاض حکومت امریکی قیادت میں شام میں استحکام کے لیے اپنے فوجی بھیجنے پر آمادہ ہے۔ سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ اس موضوع پر شامی تنازعے کے آغاز سے ہی امریکا کے ساتھ بات چیت کی جا رہی ہے۔
ریاض میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں الجبیر کا کہنا تھا کہ اگر امریکا اپنے فوجی شام میں تعینات کرتا ہے، تو سعودی عرب دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اپنی فوج کی تعیناتی کے لیے تیار ہو گا
دوسری طرف کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’او پی سی ڈبلیو‘‘ کے تفتیش کار شام میں کیمیائی حملے کا نشانہ بننے والے مقام دوما میں داخل ہوگئے ہیں۔ تنظیم کے ماہرین ہفتے کے روز دمشق پہنچے تھے تاہم ماہرین کو سیکیورٹی وجوہ کو جواز بنا کر دوما کے نزدیکی علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ امریکی حکام نے تشویش ظاہر کی ہے کہ شامی حکومت کا اتحادی روس چھیڑ چھاڑ کرسکتا ہے۔ نیٹ نیوز کے مطابق شامی فوج نے دارالحکومت دمشق کے جنوب میں واقع باغیوں کے زیر قبضہ علاقے پر بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ کمانڈر کے مطابق بمباری کا یہ سلسلہ اس علاقے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کیلئے آپریشن کی تیاریوں کا حصہ ہے۔
اس کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس آپریشن کا ہدف یرموک کیمپ اور اس سے متصل الحجر الاسود کے علاقے میں داعش اور النصرہ فرنٹ کو نشانہ بنانا ہو گا۔ شام میں سرکاری ٹی وی نے ایک اعلان میں بتایا ہے کہ فضائی دفاعی نظام نے حمص صوبے کی فضاؤں میں آنے والے 6 میزائلوں کو مار گرایا۔ ادھر امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے حمص میں کسی بھی امریکی عسکری کارروائی کی تردید کی ہے۔