تحریر : شاہ بانو میر
اٍک نگاہ ڈالئے کس قدر طاقتور اور مضبوط دکھائی دے رہے ہیں یہ تین اکٹھے نام سعودیہ پاکستان ایران جنوبی ایشیا کے خظہ میں پیدا کیا جانے والا خوفناک ماحول کسی بڑے تصادم کی جانب اشارہ کر رہا تھا باوجود پاکستان میں مخدوش حالات کے جنگی کیفیت کے دہشت گردی کے اور اندرونی بے پناہ خامیوں کے جب مسلم برادر ملک میں کوئی گھمبیر مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو قابل اعتماد اور پرتاثرمشورہ پاکستان کی قیادت کا تسلیم کیا جاتا ہے 34 مسلم ممالک کا اتحاد اورخطے میں بڑہتی ہوئی بلکہ پھیلتی ہوئی دہشت گردی کی آگ جس پر نادیدہ دشمن مسلسل تیل چھڑکنے کا کام کر رہا ہے.اس ماحول کو سمجھداری سے حل کرنے کیلئے قرعہ فال ایک بار پھرپاکستان کے حصے میں آیا ہے اس وقت جلتی پر تیل کا کام ہمیشہ کی طرح سپر پاور نے کیا ایک طرف ثالثی کیلئے کوششیں شروع ہوئیں اور دوسری جانب عین اس وقت سپر پاور نے ایران کی طاقت کو خطے میں تسلیم کروانے کیلئے عدم توازن کی پالیسی کو روا رکھا عین اسی وقت ایران کے سالوں سے منجمند کئے ہوئے اثاثے بحال کر دئے گئے۔
اب وہ آزاد ہے ہر طرح سے عالمی طاقت کو اچانک یاد آیا کہ ایران نے کئی سال تک معاشی تنگدستی کا سامنا کیا لہٍٰذا اس کو تاوان کی صورت ایک ارب ڈالرز سے اوپر خطیر رقم بھی ادا کی گئی یہ ہے طاقتورملک کا انداز جب چاہے دنیا کا یا کسی بھی حساس خطے کا توازن تبدیل کر کے رکھ دے کل تک اسرائیل پر عنایات تھیں بے شمار!! آج وہی اسرائیل اقوام متحدہ میں جنرل سیکریرٹری کیلئے اگلے سال امیدوار برائے جنرل سیکریٹری براک اباھاما کیلئے تمام ممالک پر اثر و رسوخ استعمال کر کے انہیں یہ عہدہ دینے سے بیزار دکھائی دیتا ہے کئی مسلم ممالک کی استدعا پر اورخطے کی بگڑتی ہوئی تشویشناک صورت حال پر بلآخر پاکستان نے سیاسی اور عسکری قیادت کی باہمی مشاورت سے ثالثی قبول کرتے ہوئے دونوں ممالک کے دورے کا آغاز کر دیا جو بلاشبہ پاکستان کی مسلمہ حیثیت کا آئینہ دار ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم اپنے بہادر جانباز سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے ہمراہ سعودی عرب اور ایران کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں پہلے سعودیہ کے تحفظات سے آگاہی حاصل کریں گے اور پھر ایران جائیں گے اس سے پہلے سعودی وزیر اور دیگر اہم فوجی شخصیات پاکستان کا پے درپے دورہ کر چکی ہیں جو اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان کے ساتھ بیک ڈوراورفرنٹ ڈوردونوں قسم کے معاملات جاری ہیں ایران کل تک قدرے کمزور حیثیت میں تھا .آج اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ 12 سالوں میں اس قدر تیل کی قیمت نیچے نہں آئی جتنی اس خبر کے بعد آگئی اب ایران آزاد ہے کہ پوری دنیا کے ممالک سے تیل کے علاوہ تجارتی سامان کا لین دین کرکے اپنی معیشت کو بحال کرے۔
بڑی طاقتوں نے ایک طرف ایران پر نظر کرم کی تو دوسری جانب خون کی ہولی تمام اسلامی ممالک میں ایسے کھیلی گئی کہ کھیل اب الجھ کر رہ گیا ہے کل تک سعودیہ طاقتور حیثیت کا حامل تھا نیزاللہ رب العزت نے اپنے گھر کی دیکھ بھال کی سعادت بھی دے رکھی ہے . اور اس وجہ سے تمام مسلم مالک اختلافات کے باوجود سعودیہ کو ہمیشہ ہرمشکل وقت میں اپنے تعاون کا نہ صرف یقین دلاتے ہیں بلکہ کسی بھی انہونی کی صورت اس کے دست بازو بن کر حفاظت کا عہد بھی کرتے ہیں قارئین جنرل راحیل شریف وہ فوجی رہنما جس نے انتہائی مشکل ترین حالات میں جب سیاسی قیادت بے دست و پا ہو کر بین القوامی تنہائی کا شکار تھی . اس وقت اس شیر دل انسان نے اپنے طرز عمل اپنی سچائی اور نہ بکنے نہ جھکنے والی پالیسی کے ساتھ اُن اُن ممالک کے دورے کئے بمعہ دہشت گردی کے مکمل ثبوتوں کے ساتھ جن ممالک نے ہمی کبھی قابل اعتناء بھی نہ سمجھا تھا اس عظیم انسان کی سفارتکاری نے بڑہتے ہوئے سفاک بھارتی اقدامات کو لگام دی اور بین القوامی برادری کی جانب سے پیغامات اور اشاروں کے بعد وہ وقت ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم ریاض سے واپسی پر پاکستان اچانک آتے ہیں اورصلح جوئی کا خوبصورت پیغام رقم کرتے ہیں۔
حالیہ پٹھان کوٹ کی دہشت گردی کے بعد بھی میڈیا کے تابڑ توڑ بے تکے بغیر ثبوتوں کے حملوں پر بھی حکومت کی جانب سے محتاط رویہ اپنایا گیا جوخطے پر بھارتی راج کی پسپائی کی صورت دیکھا جا سکتا ہے اس وقت معاملات انتہئی الجھے ہوئے ہیں اورسعودیہ ایران کے ساتھ اورایران سعودیہ کے ساتھ کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا . مشترکہ دشمن کی حیلہ بازیوں کو پاکستان سمجھ چکا ہے جبھی تو خطے پر ان دونوں مسلم ممالک کی کشیدگی میں اضافے سے عسکری طور پر کس قدر نقصان ہو سکتا ہے اس کی تفصیلات جنرل راحیل شریف دیں گے افغانستان کا مسئلہ حل ہوئے بغیر اس خطے میں قیام امن نا ممکن ہے اور ان مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے چین کی دن رات کی کوششوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔
چین نے طالبان سے جامع مزاکرات کے بعد آخر کار انہیں چار ملکی مذاکرات کیلئے میز پر بیٹھنے اور بات چیت کرنے پر آمادہ کر لیا یہ صورتحال بہت تکلیف دہ ہے ان طاقتوں کیلئے جو اس خطہ کو جنگ کی آگ میں جھونک کر چین کی بانسری بجا رہے تھے ان کے سارے خواب جنرل راحیل نےضرب عزب سے پہلے چکنا چور کئے اور انہیں دھکیل کر پاکستان سے نکال باہر کیا پاک چائنہ اقتصادی راہداری کی کامیابی کا دارومدار ایشیا میں پرسکون ماحول پر منحصر ہے اور چین اس کیلئے سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔
چین کے علاوہ دیگر ممالک نے ایشیائی ممالک پر واضح کر دیا ہے کہ کامیابی چاہیے تو منفی طرز سیاست ختم کرو تا کہ اب ایک دوسرے کے خاتمے پر نہیں بلکہ باہمی رابطوں پر نگاہ رکھنی ہوگی اسی میں تمام ممالک بشمول بھارت کی بہتری ہے ایک طرف تو کامیابی کا اقتصادی معاشی ترقی کے در وا ہو رہے ہیں تو دوسری جانب دنیا پر راج کرنے والوں کے ذہن اس انتشار کو مسلسل ہوا دے کر ہمسایہ ممالک کو شہہ دے کر ایک دوسرے کی سلامتی کیلئے خطرہ بنا رہے ہیں یہی وسیع المناظر کینوس مستند معلومات کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف اور سپہ سالار پاکستان جنرل راحیل شریف ثالثی کروانے اور اس مذہبی لسانی تعصب کی خوفناک فضا میں بڑہتے ہوئے درجہ حرارت کو کم کرنے اور مسلمان ممالک کے درمیان خوشگوار منقطع سفارتی تعلقات کی بھالی کیلئے سعودیہ اور ایران کے دورے پر ہیں یہ ثالثی اس لئے کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ بادی النظرمیں سب کچھ دکھائی دے رہا ہے۔
شیطانی طاقتوں کا پیچیدہ الجھا ہوا سازشی جال دونوں سمجھتے ہیں اوران میں پھوٹ دلوا کر اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچا کر کیسے کہاں تک اسلامی مفادات کو کمزور کیا جا سکتا ہے اس سے دونوں بخوبی واقف ہیں بیت اللہ ان کا اولین ہدف ہے جومسلمان ممالک کو ایک دوسرے سے بد ظن کر کے سب ممالک کو ایک ایک کر کے تنہا کر کے اس ہدف تک رسائی ممکن ہے یہ بات ایران کو گہری سنجیدگی کے ساتھ سوچنی ہوگی اب وقت اپنے اپنے ملک کے تحفظ یا دفاع کا نہیں اب تو اجتماعی اتحاد کی سخت ضرورت ہے کہ مسلمان ممالک باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر سیسہ پلائی دیوار بن کر اسلام کے ہر مشترکہ دشمن کو کیفر کردار تک پہنچا کر سکون کا سانس لیں۔
جنرل راحیل شریف کو گفتگو کا سلیقہ اور طریقہ آتا ہے اس وقت ہر مسلمان دعاگو ہے کہ امت کا پارہ پارہ ہوتا اتحاد از سر نو بھرپور توازن کے ساتھ اکٹھا ہوکر اسلامی اتحاد کی نیم جاں رگوں میں اتحاد کا یقین کا ایمان کا عمل کا گرم لہو دوڑا کردنیا میں انقلاب بپا کر دیں انشاءاللہ چال چلنے والے دھوکہ دینے والے خود اپنی ہی چال کا اپنے ہی دھوکے کا شکار ہوں گے اور پاکستان سعودیہ ایران میں صلح کروا کے اسلامی طاقت کو یکجا رکھنے میں کامیاب ہوگا انشاءاللہ۔
تحریر : شاہ بانو میر