تحریر: قیصر ملک، برلن، جرمنی
پاکستان پیپلز پارٹی جرمنی کے بنیادی کارکن و سینئر رہنما قیصر ملک کا
امسال حج کے دوران منیٰ کے مقام پر بد انتظامی کی وجہ سے قدموں تلے آ کر حاجیوں کی شہادت پر تنقیدی تبصرہ قابل غو رہے۔انکے مطابقِ ”اس سال عیدالضحیٰ کا تہوار تمام عالم اسلام کو سوگوار کر گیا، پہلے دن سعودیہ میں حج کا دن تھادوسرے دن پورے یورپ میں عیدکادن تھا۔ جرمنی میںہم سب خوشی خوشی عید کی نماز کے لئے گئے،مسجد میں نماز ادا کی اور بعد میں تمام پاکستانی ایک دوسرے کو عید مل رہے تھے، ہر ایک خوش تھا،،عید کے اس موقعہ پر تو پردیس میں دیس بنا ہوتا ہے۔ جن سے کبھی سال بھر بھی ملاقات نہیں ہوتی، عید کے دن ان سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔
عید کا تہوار جس انداز میں پردیس میں خوشی لے کر آتا ہے، یہ کوئی کسی پردیسی سے پوچھ کر اندازہ کر سکتا ہے ۔سب کو عید مل کر ہم بھی خوشی خوشی گھر پہنچے اور ٹی آن کیا کہ چلو پاکستان میں عید کی تیاریوں کے پروگرام چل رہے ہوں گے؟ اسوقت تمام پاکستانی چینل حج بیت اللہ کا منظر دکھا رہے تھے اور منیٰ کے مقام پر تمام حاجی جمرات کو کنکریاں مارنے جارہے تھے،کہ اچانک منیٰ میں گیٹ نمبر٩٣پر حادثہ پیش آگیا۔پہلے سات حاجییوں کی شہادت کا اور کچھ کے زخمی ہونے کی خبر آئی۔ہر مسلمان کے ہاتھ دعا کیلئے اٹھ گئے کہ خدا خیر کرے، یہ جو سات بتا رہے ہیں اس میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ اسکے بعددس، تیس ،چالیس،پھر ایک دم ایک سودس تک اوردیکھتے دیکھتے یہ تعداد سات سو تک پہنچ گئی۔اسی طرح سینکڑوں کی تعداد زخمیوں کی ہوگئی۔
پھر کیا تھا دوستوں کے فون شروع ہوگئے۔ ہر زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ یہ کیا ہوگیا؟نہ کسی کو اپنی عید کی خوشی رہی، نہ کسی نے اپنے میز پر سجے ہوئے کھانوں کی طرف دیکھا، ہر ایک آنکھ نم تھی۔ بار بار چینل بدلے جارہے تھے کہ شائدیہ خبر غلط ہو ،مگر یہ سب جو کچھ آنکھ دیکھ رہی تھی سچ تھا۔کوئی پاکستان فون کر رہا تھا کہ اپنے پیاروں کا کوئی پتہ چلے کہ وہ کیسے ہیں؟ جس کے خاندان کا کوئی فرد حج کے لئے گیا ہوا تھا ان کی حالت دیکھنے والی تھی، مگر کیا کرتے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس کو فون کریں ؟کس سے پوچھیں؟
ساتھ ہی یہ بھی خبریں چلنے لگیں کہ زیادہ تعداد افریقی حاجیوں کی تھی ، کچھ ایرانی تھے ۔پھر ایک خبر آئی کہ سات پاکستانی تھے۔ اسی وقت انگلینڈ سے خبر چلی کہ تین سوساٹھ پاکستانی حاجی تھے۔اس طرح کی خبریں شام دیر تک چلتی رہیں۔ اس وقت ہمارا ایک سرکاری مولوی، جو ایک شام پہلے شراب کی بوتلوںکے ساتھ اسلام باد میں پکڑا گیاتھا، نمودار ہوا تو اسنے کچھ اور ہی کہنا شروع کردیا، مگر اس دن وہ نشے میں نہیں تھا ۔ورنہ ٹی وی پرچلنے والے پروگراموں میں کئی مرتبہ اسکی حالت دیکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی۔وہ فرمانے لگے کہ حاجی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں، جس وجہ سے یہ حادثات ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعد کے اخبارات میں ہمارے کئی لیڈران، جنکا دانہ پانی سعودی چلاتے ہیں، کی شکلیں ٹی وی پر نمودار ہونا شروع ہوئیں۔ ہر ایک بازی لے جانے کے چکر میں تھا کہ کون سعودیہ کی زیادہ ٹی سی کرتا ہے،بہترحق نمک ادا کرتا ہے۔
مگر اسکے بعد جو مرحلہ شروع ہوا وہ دیکھ کر کوئی بھی انسان ایسا نہ ہوگا ،جو خون کے آنسونہ رویا ہوگا کہ وہ لوگ جو حج کے احرام میں تھے ،وہ جو اللہ تعالی کے ایک حکم کی پاسداری کرنے گئے تھے، جنکو اللہ کے گھر کا طواف کرنے کے بعد عرفات کے میدان میں دن گزارنے کا موقع ملا ، جومزدلفہ میں رات گزارنے کے بعدواپس منیٰ میںپہنچے اوراپنے فریضہ حج کے آخری مر حلے کی تیاری کرکے جمرات کی طرف روانہ ہوئے، انہیں یہ سانحہ ایک سعودی شہزادے کی فرعونیت کی وجہ سے پیش آیا۔ کوئی جو کچھ بھی کہے، یہ معاملہ ایک شہزادے کا ہے، جو سعودیہ کا وزیردفاع بھی ہے ،جس کی وجہ سے یہ عظیم حادثہ پیش آیا۔ لاکھوں حاجیوںکوروک کر اسکا راستہ بنایا گیا۔وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کنکریاں مارتا رہا۔
یہ سانحہ لاپرواہی اور ایک شہزادے کو خوش کرنے کی وجہ سے پیش آیا، جس میںشک کی کوئی گنجائش نہیں۔پھرجو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا ، وہ نہ ملتا تو بہتر تھا ۔وہ سعودیہ ،جو خانہ کعبہ کے گھر کے متولی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ،وہ جو حاجیوں کواللہ کے مہمان اور اپنے آپ کو ان کا خادم کہتا ہے ، اسکے تنخوادار،جو اسکی خدمات کے گیت گاتے ہیں، ان کے سامنے اللہ کے مہمانوںسے کیا سلوک کیا گیا اور ان شہیدوں کے جسد خاکیوں کی کس قدر تذلیل کی گئی ،آدمی کیا بیان کرے؟ اس سے صرف چاردن پہلے کرین کے حادثہ میں بھی کتنے لوگ شہید ہوئے، وہ بھی سعودیہ والوں کی ہٹ دھرمی اور فرعونیت کی وجہ سے پیش آیا ،کیونکہ یہ سب کچھ، جو یہ کررہے تھے ،کیا انکو معلوم نہیں تھا کہ حج آرہا ہے؟ اس کنسٹرکشن کو بند کر دیا جائے یا اسکو پہلے مکمل کر لیا جائے، مگر نہیں ان کو اپنے کاروبار کو ہرگز بند نہیں کرنا ہوتا بلکہ حج کے دوران بھی جاری رکھتے ہیں ۔اسکے بعدجس طرح سعودیہ کے بلڈوزر اللہ کے مہمانوں کے لاشوں کو اٹھا رہے تھے، اسطرح کسی کافر ملک میں ہوتا تو پوری حکومت گھرچلی جاتی ، اسطر ح تو وہ لوگ کوڑا بھی نہیں اٹھاتے۔ جس طرح اس دن شہدائوں کی لاشوں کی بے حرمتی کئی گئی ،دنیا کاکون سا انسان ہو گا ،جویہ منظر دیکھ کراپنے آپ کو قابو میں رکھ سکا ہو گا۔ہر انسان ،جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، اس دن اسکا سر شرم سے جھک گیا ہوگا کہ ہم مسلمان اپنے ان بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ،جن کو ہم شہید کہتے ہیں ؟ ان کو تو ذرا شرم نہیں آئی ،جو ان شہیدوں کی لاشوں کو ہاتھ لگانے سے شرما رہے تھے، جنہوں نے اپنی نااہلی، اپنی لاپرواہی اور اپنی فرعونیت کے زعم میںدوہزار پندرہ کے حج کو خون سے نہلادیا۔
انہوں نے اللہ کے مہمان شہیدوں کو ایک کوڑا اٹھانے والے بلڈوزر کے ساتھ اٹھایا اور ایک کنٹینر میں بھر کر نہ جانے کہاں جا کر پھینک دیااور پھر اس حادثہ سے محفوظ رہنے والے حاجیوں کے ساتھ جو سلوک ہو،ا وہ بھی سننے کے قابل تھا ۔و ہ بیچارے اپنے پیاروں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔سعودی تو ویسے ہی پاکستانیوں کو مسکین کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ہمارے پاکستان کے سفارت خانے والے تو اپنے حاجیوں کو پوچھتے تک نہیں ہوں گے؟ وہاں پر جو وزیر صاحب گئے ہوئے تھے، وہ بھی شام کو ٹی وی پر آکر اپنی بے بسی کارونا رو رہے تھے ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ جو بیان سعودیہ اور اسکے نمک خواروں کی طرف سے آنے شروع ہوئے ،وہ قابل شرم تھے۔ کوئی کہہ رہاتھا کہ حاجیوں کی بے صبری کی وجہ سے اور کوئی کہہ رہاتھا کہ یہ اتفاقی حادثہ تھا۔ہمارے تخت لاہور کے شہنشاہوں کی طرف سے کوئی بیان بھی جاری نہیں ہوا ،صرف افسوس کا اظہار کیا گیا ،وہ بھی چھوٹے شہزادے کی طرف سے۔
اس حادثہ نے پوری دنیا میں رہنے والے مسلمانوںکو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ جن کو ہم متولی خانہ کعبہ کہتے ہیں، کیا واقعی وہ اس قابل ہیں بھی؟اس سانحہ نے پورے عالم اسلام کوہلا کر رکھ دیا ہے۔ ٢٠١٥ء کی عید الضحیٰ اور حج واقعی پورے عالم اسلام کوسوگوار کر گیا ۔نہ جانے کتنی دیر ان شہیدوں کا خون، جو سعودی شہزادے اور نااہل انتظامیہ کی وجہ سے بہا، اپنے پیاروں اور تمام مسلمانوں کو سوگوار رکھے گا؟؟؟”
تحریر: قیصر ملک، برلن، جرمنی