تحریر: سید انور محمود
یمن کے اندرونی سیاسی اختلافات جو حوثی قبائل اور صدر عبدربہ منصور حادی کے حامیوں کے درمیان مسلح جدوجہد کی صورت اختیار کر گئے ہیں، ایران اور سعودی عرب کی مداخلت اور خطے کی مجموعی صورت حال کی وجہ سے واضح طور پر مسلمانوں کے دو مختلف مسالک کے درمیان جنگ کی صورت میں پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ 26 مارچ کو سعودی فوج نے یمن میں صدرعبد الربہ منصور ہادی کی درخواست پر شیعہ حوثی قبائل کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا ہے۔ سعودی عرب نے امارات، کویت، قطر اور بحرین کے ساتھ ملکر یمن پر فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں ۔ سعودی عرب نے دعوی کیا ہے کہ اسے امریکہ سمیت ان پانچ ملکوں کے علاوہ پاکستان کی بھی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان اس خطے میں ایک بہترین فوجی قوت کے علاوہ ایٹمی ٹیکنالوجی کا حامل واحد اسلامی ملک ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس آپریشن کے لیے نہ صرف سعودی عرب کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے بلکہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اس جنگ میں حصہ لینے کو بھی تیار ہے۔ اسی سلسلے میں 26 مارچ کو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی سربراہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے لاحق ہونے کی صورت میں اس کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔ ماضی میں سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کےدو دفاعی معاہدے تھے ایک ختم ہو گیا ہے اور دوسرا قائم ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کل وقتی وزیر خارجہ نہیں ہے اور وزارت خارجہ کا قلمدان بھی وزیراعظم کے پاس ہے لہذاپاکستان کے مستقبل اور خارجہ پالیسی کے اس اہم معاملے پر کل جماعتی کانفرنس یا پارلیمان کے اندر موجود سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کے سربراہ کے ساتھ مختصر مشاورت کے بعد سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کردیا۔
جبکہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے کی صورت میں اس کے دفاع کا وعدہ کیا ہے تاہم وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بن رہا ہے۔ 27 مارچ کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں کسی بھی فوجی اقدام سے قبل پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے گا۔اپنے خطاب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس جنگ میں حصہ لینے کا کوئی فیصلہ یا وعدہ نہیں کیا ہے۔ صرف سعودی عرب کے دفاع کا وعدہ کیا ہے۔ اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو سعودی عرب کا ضرور دفاع کریں گے اور یہ ہم نے انھیں بتا دیا ہے۔‘ ایک اہم بات جو خواجہ آصف نے کہی وہ یہ کہ مشرقِ وسطیٰ اور عرب دنیا کے متعدد ممالک میں جنگ کا ماحول ہے اور پاکستان کسی ایسے تنازعے کو ہوا نہیں دینے چاہتا جس کے اثرات مسلم دنیا پر تفرقے کی صورت میں پڑیں۔ انھوں نے کہا کہ اس (تفرقہ بازی) کی فالٹ لائنز پاکستان میں بھی موجود ہیں اور ان میں ہلچل مچانا اور پھر اس کے نتائج بھگتنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
کیا پاکستان کو اس لڑائی میں شامل ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ملک کی سیاسی جماعتوں نے بہت کھل کر اس بحران سے پاکستان کو دور رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر ہی یمن میں باغیوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے ارکان پارلیمنٹ اور لوگوں میں اس بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ہمارا دینی رشتہ ہے، حکومت فوج بھیجنے کے حوالے سے سب کو اعتماد میں لے۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، یمن اور سعودی عرب کی جنگ میں پاکستان کو نہیں کودنا چاہئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی یمن میں جاری سعودی کارروائی میں پاکستانی شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ‘ کیا پاکستان دوسروں کی جنگوں میں حصہ لے کر پہلے ہی کافی نقصان نہیں اٹھا چکا؟’ عمران خان نے یہ بھی کہا پاکستان کو اس وقت بھی فرقہ واریت کے بڑے مسئلے کا سامنا ہے اور پاکستان گذشتہ دس برس میں بہت نقصان اٹھا چکا ہے۔ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں، حتیٰ کہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے انتہائی دور جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی ایسے کسی اقدام کی مخالفت کی ہے۔
دوسری طرف سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہونا پاکستان کے لیے غیر دانشمندانہ اور تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ بی بی سی اردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پاکستان پر نظریاتی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں جو ملک اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گے۔ جبکہ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر محمد سعد نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کو ’پراکسی وار‘ کی، چاہے وہ کشمیر میں اس کی اپنی ہو یا افغانستان میں امریکہ اور سعودی عرب کی، بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ بریگیڈیئر سعد کے مطابق فوج کے اندر بھی سعودی عرب کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے جبکہ ایران کو افغانستان کے معامالات کی وجہ سے علاقائی حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بریگیڈیر سعد کے خیال میں پاکستان میں جاری فوجی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان فوج کو پہلے ہی انفنٹری یا پیادہ فوجی دستوں کی زبردست کمی کا سامنا ہے۔ بریگیڈیر سعد کا کہنا ہے کہ یمن کا بحران جلد ختم ہونے والا نہیں اورکسی ’ایگزٹ سٹریٹجی‘ یا نکلنے کے راستے کا تعین کیے بغیر جنگ میں داخل ہونا انتہائی غیر دانشمندی ہو گا۔
سابق سینئر سفارتکار اشرف جہانگیر قاضی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فرقہ واریت کی جنگوں میں ملوث نہیں ہونا چاہئے، اس سے پاکستان کا امیج خراب ہوگا، پاکستان مقروض اور مجبور ملک ہے ،ہماری خارجہ پالیسی ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتی، پاکستانی فوج صرف پاکستان کے دفاع کے لئے ہے، اگراقوام متحدہ کی قرا ر دادوں کے مطابق کچھ کرنا پڑتا ہے تو وہ الگ بات ہے، اگر پاکستانی فوج یمن میں گرائونڈ آپریشنز میں ملوث ہوتی ہے تو پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ تنائو میں اضافہ ہوسکتا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ سعودی عرب نے اپنی سلامتی کیلئے یمن پر حملہ کیا اگر سعودی عرب کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو پاکستان پیچھے نہیں رہے گا،سعودی عرب اور ایران کوآپس میں لڑا کر تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اسرائیل کو کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ پاکستان کو یمن کے معاملہ سے الگ رہنا چاہئے، پاکستانی فوجی بھیجنے سے ایران سے تعلقات خراب ہوجائیں گے، امریکا ،مشرق وسطیٰ میں ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔
وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا، پوری اسلامی دنیا میں سوائے پاکستان کے آپکو یمن میں ہونے والی جنگ کا کوئی اثر مشکل سے ہی نظر آیگا لیکن پاکستان میں مذہبی جماعتیں یمن پر سعودی عرب کے حملوں کے بعد السعود اور حوثی قبیلے کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئی ہیں، اس صورتحال میں آنے والے دنوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید اضافے کے خدشات نے جنم لیا ہے۔ جماعت الدعوۃ نے سعودی عرب کی حمایت میں متفقہ لائہ عمل بنانے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے، اسلام آباد اور لاہور میں جمعہ 27 مارچ کو تنظیم کی جانب سے السعود خاندان کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں۔ حافظ محمد سعید کہنا تھا کہ پاکستان سمیت پوری مسلم امہ کو اپنے ملکوں سے زیادہ حرمین الشریفین کی فکر کرنی چاہیے اور سعودی عرب کے دفاع کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے وہ سعودی عرب کے خلاف کسی جارحیت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جبکہ کراچی میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے خوجہ مسجد کھاردار میں یمن کے حوثی قبیلے کی حمایت میں مظاہرہ کیا گیا، جس میں سعودی حکومت کی یمن پر بمباری کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنما مولانا احسان دانش کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں اپنی لگائی گئی آگ میں خود جل رہا ہے’۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت بیرونی امداد کے نام پر ملکی سالمیت کو داؤ پر مت لگائے کیونکہ اس سے پہلے بھی نوازشریف حکومت نے سعودی مراعات خود لیں جبکہ عوام اور افواج پاکستان القاعدہ، طالبان اور داعش کی صورت میں آج بھی دہشت گردی کی قیمت چکا رہی ہے‘۔ اور بھی مذہبی جماعتوں کے بیانات ہیں جو سوائے نفرتوں کے کچھ نہیں ۔ پاکستانی بھایوں پہلے اپنا گھر دیکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جذبات میں اپنا ہی گھر جلاڈالیں، ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میری آپسے درخواست ہے کہ ان مذہب کے ٹھیکیداروں سے دور ہی رہیں۔میرا ان مذہب کےٹھیکیداروں سے یہ سوال ہے کہ یمن میں جو کچھ ہورہا ہے اُسکو پوری دنیا جانتی ہے مگر پاکستان کے اندر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، خون بہایا جا رہاہے، مذہبی جنگ جاری ہے، دہشت گرد آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں ایسے حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی مذہبی قوتیں ملک کے اندر ہونے والی کارروائیوں کے خلاف کیوں آواز نہیں اٹھاتیں؟۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی میں تضاد نظر آرہا ہے، امریکا ،عراق اور شام میں آئی ایس آئی ایس کے خلاف ایران کی حمایت کررہا ہے جبکہ یمن میں وہ ایران کے خلاف ہے، اسرائیل چاہتا ہے کہ خطے میں ایران کا اثر و نفوذ نہ بڑھے اور امریکا بالآخر اسرائیل کی ہی حمایت کرے گا۔ سعودی عرب اور ایران کی دشمنی مسلم دنیا کیلئے بڑی بدقسمتی ہے، پاکستان کے دونوں ممالک سے اچھے تعلقات ہیں، پاکستان کو ایران اور سعودی عر ب کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے سفارتی کوششیں کرنی چاہئیں، ہمیں مسلم دنیا کو جوڑنے کیلئے قدم اٹھانا ہوگا، اگر سعودی عرب کو یمن میں مداخلت کا حق نہیں ہے تو اسی طرح ایران سے بھی پوچھا جائے کہ حوثی قبائل یمن کی چار لاکھ فوج کا مقابلہ کیسے کررہے ہیں۔ پاکستان کا اس جنگ میں ملوث ہونے کی صورت میں ملک کے اندر دور رس فرقہ وارانہ اور مذہبی اثرات کے علاوہ یہاں اور بھی کئی اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی فوج ملک کے اندر کارروائیوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے سعودی عرب کی جنگ میں اپنے فوجی بھیج سکتی ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ کل جماعتی کانفرنس میں موجودہ ملکی وبین الاقوامی صورتحا ل بالخصوص موجودہ صورتحال میں پاکستان کی شمولیت یاعدم شمولیت کے بارے میں بحث کی جائے اور وہ فیصلہ کیاجائے جو صرف اور صرف پاکستانی مفادات کے مطابق ہو۔
نواز شریف کا بغیر کسی قومی مشاورت کے سعودی عرب کی حمایت کا فیصلہ اُن کے فیصلہ سازی کے انداز سے بالکل مختلف اور ان کے ناقدین کے لیے حیران کن ہے۔اس انتہائی تباہ کن صورت حال میں سعودی عرب کی مرہون منت پاکستان کی موجود سیاسی قیادت نے سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف صاحب ایک بات ضرور یاد رکھیں کہ اگر وہ سعودی احسانوں کا بدلہ اتارنے کے لیے یمن میں زمینی لڑائی میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک بات یاد رکھیں کہ یمن ایک آزاد ملک ہے ٹھیک اُسی طرح جس طرح افغانستان ہے۔ اپنے سیاسی ڈکٹیٹر باپ ضیاء الحق کے نقشقدم پر نہ چلیں اور یمن کی جنگ سے دور رہیں کیونکہ یہ آگ بھی امریکہ کی ہی لگائی ہوئی ہے۔ اس بات کو اور بہتر انداز میں سمجھنے کےلیے اُنکو چاہیے کہ وسعت اللہ خان کے ایک مضمون ‘بخشو سب کا، بخشو کا کوئی نہیں’ جو فروری 2014ء میں بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر شایع ہوا تھا ضرور پٹرھ لیں جس کے شروع میں لکھا ہے کہ ’اپنا یہ ملک بھی بخشو لگنے لگا ہے جو سب کے کام آوے ہے بھلے دوسرے اس کے کام آویں ناآویں‘۔
تحریر: سید انور محمود