کار خریدنے کی خواہش عرصہ دراز سے سینے میں پرورش پا رہی تھی۔ اسی آرزو کو پانے کے لیے میں نے 1972ء سے روپے جوڑنے شروع کردیے تھے۔ اس زمانے میں پرانی کاریں 25 سے30 ہزار کے درمیان مل جاتی تھیں۔ 1974ء میں میرے لیے یہ ممکن ہوسکا کہ میں ایک فورڈ سکارٹ خرید سکوں۔ کار خریدی گئی، اگلہ مرحلہ اسے چلانا سیکھنا تھا۔
اس سے بھی گزر گئی، پھر جب میں پہلی مرتبہ اپنی کار لے کر سڑک پر نکلی تو اس سنسنی اور خوشی کے بارے میں بیان نہیں کرسکتی جو میں نے محسوس کی تھی۔ آزادی اور ہوا کے ساتھ چل نکلنے کا احساس۔ اس بات کو 43 برس گزر چکے ہیں، چند برسوں سے آنکھوں کی خرابی کے سبب مجھے کار چلانے کی اجازت نہیں، اب میں پھر اپنی آزادی کھوچکی ہوں۔ بیٹی، بیٹا، دوست یا ڈرائیورکسی نہ کسی کی عنایت کی طلبگار۔
یہی وجہ ہے کہ جب عرصہ دراز پہلے مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ سعودی عرب میں رہنے والی امیر کبیر خواتین بھی کار نہیں چلا سکتیں اور ڈرائیور کے ساتھ اگر باہر نکلیں تو لازم ہے کہ ان کے ساتھ 12برس کی عمر کا بیٹا یا بھائی ہو جو ان کا ولی تصور کیا جاتا ہے۔
کئی ایسی سہیلیاں یا رشتے دار خواتین جو ریاض، جدہ یا سعودی عرب کے کسی بھی شہر میں رہتی ہیں، ہیرے پہنتی ہیں اور دولت مند ہیں، مجھے ان کی بے بسی اور بے چارگی نے ہمیشہ ملول کیا۔ ان ہیرے جواہرات کا کیا فائدہ کہ آپ اپنے ولا میں کھڑی مرسی ڈیز بینز یا آؤڈی نہ چلاسکتی ہوں۔ان سے ہم بھلے جنہوں نے پرانی کھٹارا گاڑیاں چلائیں، تیز دھوپ میں موٹر مکینک کے سر پر کھڑے ہوکر اسے بنواتے رہے اور اپنی آزادی پر خوش رہے۔
مجھے ہمیشہ اس بات سے دلچسپی رہی کہ سعودی عرب کی عورت کو کار چلانے کی آزادی کب نصیب ہوگی، کب وہ بھی اسٹیرنگ وہیل پر بیٹھ کر اور ایکسی لیریٹر پر اپنے پیر کا دباؤ بڑھا کر رفتار کی تیزی کو محسوس کرسکے گی۔ اب جب یہ خبر آئی ہے تو اس پر جس قدر جشن منایا جائے وہ کم ہے۔ کار چلانے پر پابندی کو احتجاجاً متعدد سعودی خواتین توڑتی رہی ہیں اور سلطنت انھیں اس کی سزا بھی دیتی رہی ہے۔
ایسی باغی عورتوں کو گرفتار کیا گیا، اگر وہ کسی اسکول یا کوئی دوسری ملازمت کررہی تھیں تو انھیں اس سے محروم کیا گیا، بر سر عام ان کی تذلیل کی گئی اور سماج میں انھیں شیطان کی چیلی کے طور پر پیش کیا گیا۔ سعودی عرب دنیا کا آخری ملک تھا جہاں عورتیں کار چلانے کے حق سے محروم رکھی گئیں۔ وہ عورتیں جنہوں نے اس پابندی کی خلاف ورزی کی اور انھیں جو سزائیں دی گئیں ان کا حساب ایک سعودی خاتون حاطون الفاسی نے رکھا۔ الحاطون ہمیں بتاتی ہیں کہ:
’’6 نومبر 1990ء کو ریاض کے ایک بڑے شاپنگ مال کے پارکنگ ایریا میں 47 سعودی خواتین ایک طے شدہ پروگرام کے تحت جمع ہوئیں۔ ان میں سے 15 کے پاس انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس تھے۔ ان سعودی خواتین نے اپنے ڈرائیوروں کو چھٹی دے دی جن کے ساتھ وہ شاپنگ مال تک آئی تھیں۔ یہ 47 خواتین اپنی کاروں میں بیٹھیں اور انھوں نے وہ ’جرم‘ کیا جو اسلامی قوانین کے تحت سعودی عرب میں قابل سزا تھا۔ انھوں نے ریاض کی سڑکوں پر ایک گھنٹے تک اپنی کاریں دوڑائیں۔ اس کی خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر میں پھیل گئی۔ درجنوں شرطے دوڑ پڑے۔ ان خواتین کی کاریں روک دی گئیں۔ کار چلانے والی تمام خواتین گرفتار کرلی گئیں۔ ان کے مرد بلائے گئے۔
چند اپنے مرد رشتہ داروں کی ضمانت پر چند گھنٹوں بعد چھوڑ دی گئیں، باقی کو ایک رات حوالات میں گزارنی پڑی اور وہ دوسرے دن رہا ہوئیں۔ یہ ایک ایسی خبر تھی جس نے سعودی حکام اور شریعت کی سختی سے پاسداری کرانے والے علماء کو ہلا کر دکھ دیا۔ 9 نومبر 1990ء یہ جمعہ کا دن تھا۔ اس روز ملک کی مساجد میں منبر سے ان عورتوں پر دشنام طرازی کی گئی۔ انھیں ’طوائف‘ اور ’آبروباختہ‘ کہا گیا۔ شہر شہر پمفلٹ بانٹے گئے جس میں ان عورتوںکے نام شایع ہوئے تھے۔ انھیں قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ وہ ملازمتوں سے نکال دی گئیں اور ان کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ عورتیں ہر سال 6 نومبرکو اپنی بغاوت کا جشن مناتی رہیں۔
مئی 2005ء۔ اس وقت ایک مشاورتی کونسل سے وابستہ سعودی دانشور محمد الزلفہ نے اس مشاورتی کونسل کی خدمت میں ادب سے یہ عرض کیا کہ ہمیں اس بارے میں غور کرنا چاہیے کہ کیوں نہ 35 سے 40 برس عمر کی سعودی عورتوں کو کار چلانے کی اجازت دے دی جائے۔ یہ مشورہ دیگر علماء کے لیے ایسا ہی تھا جیسے فلیتے کو آگ لگادی گئی ہو۔ انھوں نے محمد الزلفہ کے خلاف ہنگامہ کھڑا کردیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ سعودی خواتین کو بے راہ روی پر اُکسانا چاہتے ہیں۔
ستمبر 2007ء ۔ عورتوں کو کار چلانے کا حق دینے کے لیے ایک تنظیم وجود میں آئی جس نے شاہ عبداللہ کو 3ہزار عورتوں کے دستخطوں سے ایک اپیل بھیجی۔
8 مارچ 2008ء۔ عورتوں کے بین الاقوامی دن کے موقعہ پر درج بالا تنظیم کی ایک رکن وجیہہ الھویدر نے یوٹیوب پر اپنی ایک ویڈیو ڈالی جس میں وہ سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں کار چلارہی ہے۔ اس ویڈیو نے سعودی عرب میں سنسنی پھیلا دی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس ’بغاوت‘ کی وجیہہ کو سخت سزا دی جائے گی لیکن سعودی حکومت نے اس ویڈیو کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ یوں جیسے اس کے افسران اچانک بینائی سے محروم ہوگئے ہوں۔
17 جون 2011ء۔ اس روز 32 سالہ منال الشریف اور کچھ دوسری خواتین نے ایک بار پھر ڈرائیونگ کے ’جرم‘ کا ارتکاب کیا۔ منال کو گرفتار کرلیا گیا اور 9 دن تک وہ پولیس کی حراست میں رہی۔
26 اکتوبر 2013ء ۔ 60 سے زیادہ سعودی خواتین نے سعودی پولیس اور قدامت پرست علماء کی شدید مخالفت کے باوجود اپنی اپنی کاریں چلائیں، ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالی۔ سزا کے طور پر ان میں سے کئی گرفتار کی گئیں اور اپنے مرد رشتہ داروں کے ذاتی مچلکے پر چھوڑی گئیں لیکن اس سے پہلے ان سے یہ تحریری بیان لیا گیا کہ آیندہ وہ کبھی کار نہیں چلائیں گی۔
دسمبر 2014ء۔ عورتوں کو کار چلانے کی اجازت ملنے کی مہم کی ایک سرگرم کارکن لائوجین الہتھول نے سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات جانے اور سرحد عبور کرنے کی کوشش کی۔ اسے موقعہ واردات پر گرفتار کیا گیا اور اسے دو ماہ سے زیادہ کی مدت جیل میں گزارنی پڑی۔
26 ستمبر 2017ء ۔ سرکاری سعودی ٹیلی وژن سے اعلان ہوا کہ جون 2018ء تک سعودی خواتین پر سے کار چلانے کی پابندی ہٹالی جائے گی۔ یہ خبر سعودی خواتین، روشن خیال مردوں اور متشدد قدامت پرست حلقوں پر بم کی طرح گری۔ ایک طرف عورتیں اس خبر پر جشن منارہی ہیں، دوسری طرف قدامت پرست گریہ و ماتم کررہے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر عورتوں پر سے یہ پابندی ہٹائی گئی تو مملکت سعودیہ میں سکیولر ازم کا سیلاب اُمنڈ آئے گا جو تمام روایات اور اقدار کو بہا لے جائے گا۔ عورتیں اگر کار چلانے لگیں تو اس کا سکیولرازم سے کیا تعلق ہے، کم سے کم ہم لوگوں کے لیے تو ناقابلِ فہم ہے۔
پاکستان میں عورتیں 1947ء سے کار چلارہی ہیں لیکن یہاں سکیولر ازم تو دور کی بات ہے، لبرل ازم کو بھی قدم بہ قدم پسپائی ہوئی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ پسپائی اس شخص کے ہاتھوں ہوئی جس نے 1977ء میں پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا اور پھر خانہ کعبہ میں یہ حلف اٹھایا کہ وہ 90 دنوں کے اندر انتخابات کرادے گا۔
ہمارا سماج آج تک اس آمر کے لگائے ہوئے کاری وار سے سنبھل نہیں سکا ہے، اس کے باوجود پاکستانی مرد ہوں یا عورتیں وہ ایک روادار اور انصاف پسند جمہوری سماج کے لیے مستقبل مزاجی سے لڑرہے ہیں اور اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آخری جیت ان ہی کی ہوگی۔
سعودی خواتین اور مردوں نے اپنے جمہوری اور سماجی حقوق کے لیے جو لڑائی سالہا سال سے لڑی ہے، وہ اب ثمر بار ہونے والی ہے۔اس کے لیے ان لوگوں کو دلی مبارکباد۔ اس کے باوجود 30 جون 2018ء کی شرط دل کو دہلا دیتی ہے۔ جانے درمیان میں قدامت پرست اور انتہا پسند عناصر کون سی اڑچن ڈال دیں۔ اس کے باوجود سعودی عرب کے جمہوریت پسند اور معتدل مزاج لوگوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس ’شاہی عنایت‘ کے پس پردہ وہ سنگین معاشی مسائل ہیں جن سے شنہشاہیت دوچار ہے۔
لاکھوں ڈرائیوروں کی بھاری تنخواہیں اب مملکت اور خود وہاں کی معیشت پر ایک بوجھ بن چکی ہیں۔ اس کے ساتھ تیل کی دولت کم ہونے کے بعد اب ملک کی نصف آبادی کو معاشی اور سماجی دھارے میں شریک کیے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں ہوسکتی۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کے سامنے آسمانی پابندیاں پَر لگا کر اڑجاتی ہیں۔