تحریر : حبیب اللہ سلفی
سعودی عرب نے یمن میںحوثی باغیوں کی بغاوت کچلنے کیلئے”فیصلہ کن طوفان” نامی آپریشن شروع کر رکھاہے اور سعودیہ کی قیادت میں امارات، کویت ، بحرین اور مراکش کے جنگی طیارے اس آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ سعودی عرب کو پاکستان ، ترکی، مصر، اردن اور سوڈان کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔یمن میں حوثی باغیوں کیخلاف کی جانے والی بمباری میں درجنوں باغی مارے گئے اور ان کے زیر قبضہ ملٹری ایئربیس تباہ ہو گیا ہے ۔ اسی طرح سرکاری فوج نے فضائی بمباری شروع ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی باغیوں کے زیر کنٹرول عدن میں بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔حوثی باغیوں نے 22ستمبر 2014کو یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کیا اور پچھلے ایک ہفتہ سے جنوبی شہر عدن کی جانب پیش قدمی کا آغاز کر رکھا تھا۔ چنددن قبل اس شہر کا محاصرہ اور یمنی صدر عبدالربومنصور ہادی کے کمپائونڈ پر طیارے سے تین میزائل داغے گئے
تاہم فضائی دفاعی نظام کے ذریعہ اس کا رخ موڑ دیاگیا اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا جس کے بعد وہ وہاں سے محفوظ مقام کی جانب چلے گئے۔ یمنی صدر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط لکھا تھا جس میں حوثی باغیوں کے خلا ف مدد کی اپیل کی گئی ۔ اسی طرح عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل سے بھی مدد طلب کی گئی جس پر خلیج تعاون کونسل(جے سی سی) میں شامل چھ میں سے پانچ ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر اور کویت نے یمنی صدر کی اپیل پر حوثی باغیوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا۔واشنگٹن میں سعودی سفیر عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ یمن میں صدر منصور ہادی کی قانونی حکومت بچانے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے اور انہی کی درخواست پر یہ کارروائی کی جارہی ہے۔
یمن کی صورتحال اس وقت یہ ہے کہ وہاں کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے بیٹے احمد علی صالح کو ایران نواز حوثی باغیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے اور سرکاری فورسز بھی دو حصوںمیں تقسیم ہو چکی ہیں۔ ایک گروہ حوثیوں کا ساتھ دے رہا ہے جبکہ یمنی صدرعبدالربو منصور ہادی کے حامی حوثی باغیوں کے خلاف برسر پیکار ہیں جنہیں جنوبی اور وسطی یمن سے تعلق رکھنے والے مسلح قبائل کی حمایت بھی حاصل ہے۔ سعودیہ کے ایک سو لڑاکا طیارے اس وقت حوثیوں کیخلاف جنگی مہم میں شریک ہیں۔ اسی طرح سعودی فوجیوں کو بھی یمن کے ساتھ ملنے والے سعودی عرب کے سرحدی علاقے میں تعینات کیا گیا ہے اور ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں فوجی یمن آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔سعودی عرب نے جنوبی ایئرپورٹس پر پروازیں بند کر دی ہیںاور کہاجارہا ہے کہ فضائی حملوں کے بعد زمینی کاروائی کی بھی ضرورت پیش آسکتی ہے۔پورے سعودیہ میں سکیورٹی الرٹ کر دی گئی ہے۔ کویت نے تیل تنصیبات کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔ 4 مصری جنگی جہاز خلیج عدن جانے کے لئے نہر سویز میں داخل ہوگئے ہیں جو وہاں کارروائیوں میں حصہ لیں گے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ حوثی باغیوں کے لڑاکا طیارے اس کے ایک حامی ملک کے پائلٹ اڑا رہے ہیں اور سعودی عرب کی سرحد سے ملحقہ علاقہ میںمسلح ملیشیا کی جانب سے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ فوجی مشقیں کی جارہی ہیں۔
اس تناظر میں اگر ساری صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو حالات بہت زیادہ گھمبیر دکھائی دیتے ہیں۔اس پورے خطہ میں یہ آگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے لگائی گئی ہے۔ اس نے عراق میں شیعہ سنی لڑائی جھگڑے کا جوفتنہ کھڑا کیا وہ یہی ماحول پورے عرب میں بنانا چاہتا ہے ۔پہلے عراق اور شام میں یہ کھیل کھیلا گیا اور اب یمن میں فسادات کی آگ بھڑکا دی گئی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف یمن کا اندرونی مسئلہ ہے اس لئے سعودی عرب اور دیگر ملکوں کو وہاں حملے نہیں کرنے چاہئیںلیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حوثی باغی جو یمن کی آئینی و قانونی حکومت کے خلاف مسلح کاروائیاںجاری رکھے ہوئے ہیں’ انہوںنے یمنی دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا اور پھر عدن کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے یہ کہناشروع کر دیاکہ وہ صرف یہاں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگلا ہدف ان کا سعودی عرب ہے تو پھر سعودیہ اور اس کے حامی ممالک کس طرح اس صورتحال سے لاتعلق رہ سکتے ہیں۔خلیجی ممالک اس بات سے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ سعودی عرب کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں بھاری ہتھیاروں کے ساتھ فوجی مشقیںبند کی جائیںاگر اس کے باوجود سرحدوں پر خطرات کھڑے کئے جاتے ہیں توکیا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو ایساکرنے والے باغیوں کی بغاوت کچلنے اور اپنے ملک کے دفاع کا پورا حق حاصل نہیں ہے۔جہاں تک ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلافات اور شیعہ سنی جنگ چھڑنے کی بات ہے تو اس کا کوئی بھی حامی نہیں ہے۔
بڑی دیر سے صلیبی و یہودی کوشش کر رہے تھے کہ بیت اللہ اور مسجد نبوی والی سرزمین سعودی عرب جس کا دفاع ہر مسلمان اپنے عقیدے و ایمان کا حصہ سمجھتا ہے’ کو عدم استحکام سے دوچار کیاجائے۔آج اگر صلیبی و یہودی خطہ میں فسادات کی آگ بھڑکا کرسعودی عرب کو کمزور کرنے اورحرمین الشریفین کو نقصانات سے دوچارکرنے کی سازشیں کر رہے ہیں تو سب ملکوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر متحد ہو کرسرزمین حرمین الشریفین کا تحفظ کرنا چاہیے اور کسی کواس حوالہ سے صیہونی سازشوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔یہ مسئلہ انتہائی حساس ہے’امریکہ بظاہر سعودی عرب کی حمایت میں بیانات دے رہا ہے لیکن یہ حقیقت بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ یمنی باغیوں کو اسلحہ اور دیگر وسائل بھی صلیبیوں کی جانب سے ہی مہیاکئے جارہے ہیں۔آج کل میڈیاکا دور ہے حوثی پائلٹوں کے طیارے کون اڑا رہا ہے اور انہیں تربیت کون دے رہا ہے؟ یہ باتیں ساری دنیا کے سامنے کھل کر واضح ہو چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ عراق کے علاوہ کسی ایک عرب ملک نے بھی حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت نہیں کی۔بہرحال پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ برادر اسلامی ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات سے سختی سے نمٹا جائے گا۔وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس جس میں جنرل راحیل شریف اور ایئر چیف مارشل سہیل امان و دیگر نے شرکت کی’میںاس بات کا عزم کیا گیا کہ پاکستان فرقہ وارانہ تصادم کا حصہ نہیں بنے گا تاہم سعودی عرب کے ساتھ ہماری کمٹمنٹ اٹل ہے ۔ اس لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے گاکہ سعودی عرب کی حدود پامال نہ ہوں اور اس سلسلے میں اگرکوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔ادھر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہاہے کہ پاکستان نے ابھی تک یمن جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ نہیں کیا’ اگر اس سلسلہ میں فوج بھجواناہوئی تو اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میںلیا جائے گا۔
جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق ودیگر مذہبی قائدین نے حرمین الشریفین کے تحفظ کیلئے کردار ادا کرناپوری مسلم امہ کی ذمہ داری قرار دیا ہے جبکہ دوسری جانب بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس حوالہ سے مایوس کن رویہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محض ذاتی و سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر حکومتی فیصلہ کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔اس سے ملک میں اتحادویکجہتی کی فضا متاثر ہو رہی ہے۔ سعودی عرب نے قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہمیشہ وطن عزیز کے دفاع کا کردار ادا کیا ہے آج اگر وہ مشکل حالات سے دوچار ہے تو ایٹمی صلاحیت رکھنے والے پاکستان کو اس کی ہر ممکن مددوحمایت کرنی چاہیے۔یہ ان پر فرض اور پوری قوم کے دل کی آواز ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں سعودی عرب کی حمایت میں مظاہرے ہوئے ہیں جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ مسلم امہ کا ہر فرد حرمین الشریفین کے دفاع کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہے۔جماعةالدعوةنے اس سلسلہ میں ملک گیر تحریک چلانے اور رائے عامہ ہموار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ جلد ایک بڑی اے پی سی بلائی جائے گی جس میں یمن میں جاری بغاوت سے متعلق اصل حقائق سب کے سامنے لائے جائیں گے۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ بروقت اقدام ہے جسے پوری قوم کی تائید حاصل ہے۔ حرمین الشریفین کے ساتھ مسلمانوں کا ایمان و اسلام کا رشتہ ہے جو ان شاء اللہ تاقیامت قائم رہے گا۔
تحریر : حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005