تحریر : علی عمران شاہین
امریکی سینیٹ نے بالآخر وہ بل باقاعدہ طور پر منظور کر لیا ہے جس میں نائن الیون کے واقعہ سعودی عرب کا کردار تسلیم کر کے کہا گیا ہے کہ اس واقعہ کے متاثرین ریاض حکومت سے اپنے پیاروں کے مارے جانے کا ہرجانہ طلب کر سکتے ہیں۔ اس بل کو وائٹ ہائوس اور صدر اوبامہ نے تو فی الوقت مسترد کر دیا ہے ہے لیکن آگے چل کر حالات کیا کرو ٹ لیتے ہیں اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکی کسی کو دوست نہیں۔ امریکہ میں سعودی عرب کو نائن الیون کے واقعہ میں ملوث قرار دینے کہ وجہ یہ بیان کی جا رہے کہ اس روز جہازوںکو اغواکر کے عمارتوں سے ٹکرانے میں جو 19 ہائی جیکر ملوث تھے’ان میں چونکہ 15 سعودی تھے’لہٰذا سعودی عرب ہی اس واقعہ کاذمہ دار ٹھہرتا ہے۔
نائن الیون کے حوالے سے امریکہ میں جوانتہائی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن قائم کیاگیاتھا’ اس نے طویل تحقیقات کے بعد اگرچہ لکھا ہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے ساتھ سعودی حکومت کاکچھ لینادینا ثابت نہیں ہوالیکن ساتھ ہی چور دروازہ کھلا چھوڑتے ہوئے یہ ضرور لکھ دیا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی نہ کوئی نچلے درجے کا سعودی عہدیدار کسی نہ کسی سطح پراپنے تئیں اس واقعہ میں ملوث ہو۔ رپورٹ میں اس حوالے سے 28صفحات شامل ہیں جنہیں اب تک خفیہ رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے 15سال بعد امریکی کانگرس کے ساتھ ساتھ امریکی عدالتیں تمام ترتفتیش مکمل ہونے کے باوجود نئے سرے سے کام کر رہی تھیں۔
ایسے حالات میں جب امریکہ اورایران کی نام نہاد دشمنی بھی ختم ہو چکی ہے اور امریکہ کھل کر ایران کا ساتھ دے رہاہے’ سعودی حکومت ‘عرب اور افریقی مسلم ممالک کی تشویش بلاوجہ نہیں۔دنیاحیران ہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے ساڑھے پندرہ سال بعد امریکیوں نے یہ نیا پنڈوراباکس کہاں سے کھول لیاہے لیکن امریکیوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں’اس لیے کہ ان کاکواسفید بھی ہو تو ساری دنیاکو ماننا پڑے گاکہ دنیامیں اس وقت وہ سب سے بڑی قوت جو ہیں۔
عالمی ادارے لکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب کی84سالہ” دوستی واتحاد ”کو خطرات کاسامناہے اور اسے دھچکے لگ رہے ہیں حالانکہ حقیقت تویہ ہے کہ یہ دوستی نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ ہمیشہ مفادات کی جنگ لڑتاہے اور جہاں پہنچ کرامریکہ کا مفاد کم ہوجائے’وہ پیچھے ہٹنے میں دیر نہیں لگاتا۔شام کاہی معاملہ دیکھ لیں۔کہنے کواول رو ز سے امریکہ بشارالاسد کا”کھلامخالف ”ہے لیکن بشارالاسد کے حامی روس اور ایران وغیرہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روند کر ساری دنیا کے سامنے بشارالاسد کے مخالفین کے خلاف فضائیہ سمیت ہرطرح کی جنگی وعسکری کارروائیاں کررہے ہیں لیکن امریکہ نے جواباً ایک گولی نہیں چلائی۔
اس پرمستزاد امریکی صدر اوبامہ کابیان آیا کہ ”مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے شام میں کوئی عسکری کارروائی نہیں کی” بشارالاسد کی فوج اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت اس کی فوج کی جگہ روسی فضائیہ، یرانی پاسداران انقلاب’ دنیابھرسے بھرتی کیے گئے جنگجواور لبنانی حزب اللہ وغیرہ ”مقامات مقدسہ”کی حفاظت کے نام پر لڑ رہے ہیں لیکن امریکہ اپنے منافقانہ کردار کو فخر کے ساتھ جاری وساری رکھے ہوئے ہے۔سعودی عرب کے ساتھ اس کی یہی منافقت اب جیسے ہی پوری طرح کھل کردشمن کی صورت میں سامنے آئی توسعودی عرب کو بھی کھل کر سامنے آنا پڑا۔ سعودی عرب نے کہا کہ امریکہ نے سعودی عرب کوکسی بھی سطح پر نائن الیون کے حملوں کاذمہ دار قرار دینے کی کوئی عملی کوشش کی یااس کو اسلحہ کی فراہمی بندکرنے کی کوشش کی تو سعودی عرب فوری طورپر امریکہ میں موجود اپنے 1ہزار ارب ڈالر کے قریب کے اثاثے فروخت کردے گا۔ سعودی عرب کی طرف سے اس دھمکی کاسامنے آنا تھا کہ امریکی حکومت فورا ًبھیگی بلی بننا شروع ہو گئی۔
بیک جنبش قلم سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بیان جاری کیاکہ اگر کانگرس نے ایساکوئی بل منظور بھی کر لیا تو وائٹ ہاؤس اسے ویٹو کردے گااور صدراوبامہ اس پرکبھی دستخط نہیں کریں گے۔اس کے ساتھ ہی دنیانے ایک انوکھا منظر دیکھاکہ مطلب کے وقت گدھے کو بھی باپ بنانے والی امریکی قوم اور گدھے کے نشان پرمنتخب صدر باراک اوبامہ نے فوری طورپر سعودی عرب کے دورے کا اعلان کردیااور پھراپنے دورہ میں خلیجی ممالک کو بھی شامل کر لیا۔دنیااس وقت حیران رہ گئی جب امریکی صدر کا جہاز ائیرفورس ون سعودی دارالحکومت ریاض کے ہوائی اڈے پراترا تواوبامہ کا استقبال کرنے کے لیے شاہ سلمان توکجا’کوئی ایک بھی اہم سعودی عہدیدار وہاں موجود نہیں تھا۔یہاںا وبامہ کا استقبال ریاض شہرکے مقامی میئر نے کیا۔اس کے ساتھ یہ منظر بھی ساری دنیا نے پہلی باردیکھا کہ اوبامہ کسی دوسرے ملک میں اتر رہا تھا اور وہاں کامقامی ٹی وی اس منظر کو سرے سے دکھا ہی نہیں رہاتھا۔عالمی میڈیا نے اسے ”چبھتاہوااستقبال” قرار دیا۔
گزشتہ ایک سال سے عالمی میڈیا اس پروپیگنڈہ میں مصروف ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کافی زیادہ کم ہونے سے دنیاکے سب سے بڑے تیل پیدا کنندہ ملک سعودی عرب کوشدیدمالی خسار ے کاسامنا ہے۔ اس حوالے سے طرح طرح کی منفی افواہیں اوررپورٹیں مسلسل نشر کی جارہی ہیں ‘حالانکہ تیل کی قیمتیں کوئی پہلی بار کم نہیں ہوئیں ۔اصل بات یہ ہے کہ اس وقت سعودی عرب دنیا میں کئی محاذوں پرمصروف جنگ ہے۔ان محاذوں میں بحرین’یمن’ عراق’شام وغیرہ تو سب کے سامنے ہیں ۔ان تمام محاذوں کی جنگ میں جو ممالک سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں’ سعودی عرب کو لامحالہ ان کی بڑے پیمانے پر مالی مدد کرنا پڑتی ہے۔
اس کی ایک مثال مسلم دنیا کے ایک اور اہم ملک ملائیشیاکی ہے جس کے صدر نجیب عبدالرزاق کوذاتی طورپر بھی اور ریاستی سطح پر بھی سعودی عرب نے بھاری مالی امداد دی جس کا حال ہی میں اعتراف کیاگیا۔ اسی طرح اس محدود عرصہ میں پاکستان کو یکمشت دوارب ڈالر’مصر کو 5ارب ڈالر اورافریقی دنیا کے کتنے ملکوں کو بھاری امدادیں دی گئیں’ بلکہ مالدیپ جیسے 3لاکھ آبادی والے ملک کو فوجی اڈے بنانے کے لیے سعود ی عرب نے حال ہی میں 700ملین ڈالر کی امداد دی ہے۔ملک میںاشیائے خورونوش کی قیمتیں2ماہ پہلے 26 فیصد کم کی گئیں۔
جگہ جگہ جنگوں میں عملی طورپر شمولیت میں اٹھنے والے بھاری اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔یہ تمام محاذ سعودی عرب نے نہیں کھولے،ان سب کے پیچھے تو مختلف اسلام اور عرب دشمن قوتیں کارفرما ہیں ،جو اب عرب دنیا کو تباہ کرنے پر تل چکی ہیں۔اگران میں سے کسی ایک محاذ پر بھی عرب دنیاکمزور ی دکھائے تو لامحالہ انہیں شدید مشکلات کاسامنا ہوسکتاہے۔اس کا ادراک کرتے ہوئے سعودی عرب کی قیادت میں ساری عرب اور مسلم دنیا نے اپنی ساری توجہ اپنے دفاع کی جانب مرکوز کر رکھی ہے۔ اس عرصہ میں سعودی عرب کی جانب سے 34مسلم ممالک کے عسکری اتحاد کی تشکیل اور پھراسے آگے بڑھاتے ہوئے 39ممالک تک لے جانا’چند ہفتے پہلے ہی کا تو کارنامہ ہے۔ اس اتحاد کی تشکیل کے فوری بعد ہی اربوں ڈالر کے اخراجات کے ساتھ’مسلم دنیاکی سب سے بڑی جنگی مشقیں کی گئیں۔اس کے ساتھ ہی حال ہی میں شاہ سلمان نے عرب دنیاکے دفاع کے لیے الگ سے ”عرب فورس” کی تشکیل کااعلان کیا۔یہ اعلان ماہ اپریل کے پہلے عشرے میں اپنے مصر کے دورے کے موقع پرکیا گیاجس کے بعد وہ ترکی میں او آئی سی کے اجلاس میں پہنچے۔
سعودی عرب کے مسلم دنیاکے حوالے سے عالمی کردار کو دیکھتے ہوئے ترکی میں سارے عالم اسلام کے سربراہان نے سعودی فرمانرواشاہ سلمان کا پرتپاک استقبال کیا۔ یہاں 57مسلم ممالک نے یک زبان ہو کر ایران کی دوسرے مسلم ممالک میں مداخلت اور دہشت گردی کے فروغ میں کردار پرکڑی تنقید کی توایران کایہاں کوئی ایک ملک بھی ساتھ دینے والا نہیں تھا۔اس صورتحال کے پیش نظر ایرانی صدر حسن روحانی اختتامی اجلاس سے پہلے ہی کانفرنس کو الوداع کہہ آئے۔
امریکی حکومت ‘وائٹ ہاؤس اور باراک اوبامہ ویسے ہی دم ہلاتے ریاض نہیں پہنچے تھے۔ اس کے پیچھے سعودی حکومت کامسلم دنیاکے حوالے سے وہ عالمی کردار ہے جس کے بعد اب سارا عالم اسلام سعودی عرب کو اپنا حقیقی رہبر’محافظ اور سربراہ سمجھتا ہے۔ساراعالم اسلام اب جان رہا ہے کہ امریکہ کی اگلی سازشیں کیا ہیں…؟
تحریر : علی عمران شاہین
(برائے رابطہ:0321-4646375)