تحریر: علی عمران شاہین
یمن کی حکومت پر ناجائز قابض اور سارے جزیرہ عرب کے لئے خطرے کا باعث حوثی باغیوں کے خلاف سعودی اتحاد کا آپریشن جاری ہے۔4ستمبر کو ایک حوثی حملے میں 60 سعودی اتحادی فوجی شہید ہوئے جن میں 52متحدہ عرب امارات اور 8 سعودی عرب سے تعلق رکھتے تھے۔حوثی باغیوں کو بیرون ملک سے زبردست مدد وحمایت آج بھی مل رہی ہے جس کے ساتھ ہی وہ سعودی تنصیبات، سرحدات، عام شہریوں کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔
سعودی صوبہ نجران ان کے خاص نشانے پر ہے جہاںبیسیوں سعودی فوجی اور شہری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔اسی سب کے خلاف سعودی حکومت کو آپریشن شروع کرنا پڑا تھا جو کہ اب آگے بڑھ رہا ہے۔15جولائی کوسعودی فورسز نے یمن کے اہم ترین ساحلی شہر عدن اورملک کے سب سے بڑے ہوائی اڈے کا کنٹرول سنبھالا تھا۔سعودی عرب کے ہوائی جہاز ہوائی اڈے کو کھولنے کے لیے ضروری سازوسامان لے کرہوائی اڈے پراترنا شروع ہوئے۔ہوائی اڈے کی سکیورٹی کی ذمہ داری اب سعودی عرب کے ہی پاس ہے۔
یمن کی جلاوطن حکومت کے دستوں نے بھی حوثی باغیوں کومسلسل پیچھے دھکیلنا شروع کررکھاہے تو سعودی اتحاد کی کامیاب کارروائی بھی جاری ہے۔29جولائی کوممتاز امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ نے خبردی تھی کہ” سعودی اتحادی دستوں نے عدن جیسے ایک مرکزی شہر کو اپنے کنٹرول میں لینے کے بعد اب مزید پیش قدمی کی تیاریاں شروع کررکھی ہیں۔”یہ وہی امریکی اخبارہے جس نے چندہفتے پہلے کہاتھا کہ یمن سعودی عرب کے لیے ویت نام ثابت ہوسکتاہے لیکن اب وہی سعودی عرب کی چند دنوں میں زبردست کامیابی کو تسلیم تو کررہے ہیں لیکن اس کے لیے ان کاکہنایہ ہے کہ اس زبردست کامیابی کے پیچھے جلا وطن یمنی صدر عبدربہ ہادی منصورکے ان فوجیوں کا کردار اہم اوربنیادی ہے جنہیں سعودی عرب نے اپنے ہاں تربیت دی ہے اور انہیں اس کے بعد لڑنے کے لیے یمن بھیجاہے ‘اب وہی لڑرہے ہیں۔ سعودی اتحادی افواج کے سعودی سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمد عسیری نے بتایا تھا کہ عدن کی فتح تو ایک پہلا قدم ہے۔
بہت جلد بڑی خبریں سامنے آئیں گی۔
واشنگٹن پوسٹ لکھتاہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یمن میں اپنی افواج داخل کرنے کے بجائے ایک نئی حکمت عملی اپنائی اور یمن کی ہی فورسز کو تربیت دے کر ملک میں اب اتاردیاگیاہے۔ سعودی عرب کے ایک سابقہ غیرملکی سفارتکار نے بتایا کہ سعودی سرزمین پر ہزاروں کی تعداد میں یمنی اہلکار تربیت حاصل کر رہے ہیں(جو جلد اپنے وطن کو حوثیوں سے آزاد کروانے کے لیے پہنچنے والے ہیں)اخبارنے لکھا کہ ان کی بات مصطفی علانی نامی ایک عرب دفاعی تجزیہ کار سے ہوئی ہے جو سعودی فورسز کے انتہائی نزدیک سمجھے جاتے ہیں ۔ان کاکہناہے کہ لگ بھگ 10ہزار یمنی جوان اوراہلکار سعودی عرب کے مختلف مقامات پر جنگی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ جن میں قبائلی جنگجو’ سابق فوجی افسران اور وہ یمنی بھی شامل ہیں جوسعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں۔ عدن کی اس فتح کی لڑائی میں انہی نوتربیت یافتہ دستوں نے اہم کردار اداکیا ہے جن کا پہلا گروپ یہاں اتراہے اور اب مصروف جنگ ہے۔
عدن میں حوثی مخالف ملیشیا کے ایک جنگجو 44سالہ وداہ الدبیش نے بتایا کہ سعودی عرب سے آنے والے تازہ دم دستے اعلیٰ تربیت یافتہ اوربہترین اسلحہ سے لیس ہیں۔مصطفی علانی اور الدبیش کے مطابق سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے درجنوں عسکری ماہرین بھی عدن میں ان جنگجوؤں اورفوجی دستوں کی مددکے لیے موجود ہیںجو عدن کی فتح کے ساتھ ہی یہاں آئے ہیں۔ اتحادی ممالک کی جانب سے اس کا رروائی کے بعدملک کے اسلام پسند طبقات اور قبائل بھی حوثیوں کے خلاف ایک ہوگئے ہیں۔دوسری طرف حوثی باغیوں کے ایک کمانڈر احمدفریب نے بتایا کہ ہم عدن سے باہر دوبارہ سے حملے کی تیاری کررہے ہیں۔
عدن میں کامیابی کے بعد ہی سعودی عرب نے اعلان کیا تھاکہ وہ جنگ بندی کرکے ملک کے عوام کے لیے امدادی سامان پہنچائیں گے ۔پے درپے کہ سعودی حکومت پہلے بھی یمنی عوام کی مدد کے لیے کروڑوں ڈالر کی امداد روانہ کررہی ہے۔یہاں یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ یمن کادارالحکومت اگرچہ صنعاء ہے لیکن عدن شہر ملک کااصل مرکز ہے کیونکہ یہاں پرہی ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ اور سب سے بڑاہوائی اڈہ واقع ہے توساتھ ہی ساتھ اصل ملکی معیشت وکاروبار کا انحصار بھی اسی شہر پر ہے۔
حوثی باغیوں کودنیاکے کئی ممالک اور تنظیموں کی بھی امداد ‘ سرپرستی اور شہ حاصل تھی جوکہ اب بھی حاصل ہے لیکن اتنے مختصر عرصہ میں سعودی اتحاد نے جس طرح کامیاب حکمت عملی سے یمن کا سخت گھیراؤ کرکے باغیوں کی بیرونی امداد بند کرکے ان کا ناطقہ بندکیا ‘اس نے ساری دنیاکوحیران کردیا۔سعودی عرب نے اپنی تاریخ میں نئے عظیم عسکری باب کااضافہ کرتے ہوئے جس حکمت عملی سے عرب دنیا کا اتحادبنایا۔وہ بھی ایسا شاندارکارنامہ تھا کہ اس کی وجہ سے سعودی عرب کے خلاف عالمی سطح پرکوئی مخالفانہ بات تک نہ ہوسکی۔سعودی عرب نے اپنے فضائی آپریشن میں جس طرح حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کوچن چن کر نشانہ بنایا’ وہ بھی پہلی بار عسکری کارروائی کرنے والی فضائیہ کاایک عظیم کارنامہ قرار دیاجاسکتاہے کہ اس طویل کارروائی میں سوائے ایک آدھ ہوائی جہازاور ہیلی کاپٹر کے نقصان کے اور کسی نقصان کا بھی سامنا نہ ہواحالانکہ حوثی باغیوں کے پاس حکومتی اسلحہ کے ذخائر بھی آچکے تھے اور بیرونی ممالک سے ہرطرح کی امداد بھی موجودتھی لیکن سعودی فضائیہ نے ان کے اسلحہ اورگولہ بارودکیبیشترٹھکانے چن چن کر تباہ کردئیے۔
اس سارے عرصہ میں شاہ سلمان نے اپنے ملک میں عوام کو مکمل طورپرپُر سکون رکھا اورامریکہ میں دیگر عالمی طاقتوں کی طرح ملک میں خوف وہراس کی کوئی کیفیت پیدانہ ہونے دی۔یہ ان کی فہم وفراست اورعقل و دانش کاایک کمال اظہارتھا ۔شاہ سلمان نے اپنے اقتدار کے چند ماہ میں اپنے ملک کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے ہاں روزگار اور کام کاج کے لیے آئے ایک کروڑ سے زائد غیرملکیوں کی سہولت اورتحفظ کے لیے بھی ایسے ایسے نئے قوانین اورضابطے متعارف کروائے کہ ان میں بھی اطمینان اورسکون کی لہر دوڑتی نظر آئی۔ شاہ سلمان نے اپنے سمیت سارے شاہی خاندان کو عام شہریوں جیسا قرار دے کر عوام میں احتساب کے لیے پیش کیا جوکہ دور حاضرکی ایک نادرمثال ہے۔
حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے آپریشن” صحرائی طوفان ”کے بعد سعودی سرحد کے بعد ملک کے اندربھی دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی کوشش کی لیکن سعودی فور سز نے انہیں ہرمرتبہ ناکام بنایا۔ عدن کی فتح کے دوران ہی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی فوج نے حوثیوں کے سربراہ عبدالمالک الحوثی کے بھائی عبدالخالق الحوثی کو بھی گرفتارکرلیا۔عبدالخالق الحوثی اس بغاوت کا ایک سرکردہ رہنمارہاہے جس نے صنعا پر قبضے میں اہم کرداراداکیاتھا۔ بیشترحوثی باغی کمانڈروں کی ہلاکت اورباقی ماندہ کے ملک سے فرار کے بعد عبدالخالق الحوثی کی گرفتاری ایک اہم ترین پیش رفت قرار دی جارہی ہے۔
عالمی میڈیانے لکھا کہ عدن کی فتح کے بعد سعودی بحریہ کے سربراہ سب سے پہلے ایک طیارے میں پہنچے۔ ا س وقت ہوائی اڈے پرباغی راکٹ بھی فائر کررہے تھے لیکن سعودی افسران اوراحکام نے کسی کی پرواہ نہ کرکے ثابت کیا کہ ان کی تاریخ جس بہادری اور اولوالعزمی سے عبارت ہے’ وہ آج بھی اس کے امین ہیں۔انہی کاوشوں سے اب یمن کی قانونی حکومت کی بحالی بھی تیزی سے جاری ہے۔وزیر اعظم خالد بحاح اپنے بیشتر وزراء کے ساتھ 2ماہ سے عدن میں بیٹھ کر حکومت چلا رہے ہیں جبکہ دارالحکومت صنعا ء کی آزادی کے لئے بھی بڑا آپریشن جاری ہے جس کے لئے قطر نے بھی 1ہزار فوج روانہ کی ہے۔دنیا سوچ رہی تھی کہ متحدہ عرب امارات ایک بڑا فوجی نقصان اٹھانے کے بعد یمن سے فوری نکل جائے گا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے آپریشن کو مزید تیز کر دیا ہے۔حوثی باغی کوئی معمولی طاقت یا گروہ نہیں ،انہیں تو باہر کی طاقتوں سے جو مدد مل رہی ہے وہ سب کے سامنے بھی ہے اور صورتحال دھماکہ خیز بھی ہے۔حوثیوں کے خطرناک ترین عزائم بشمول حرمین شریفین پر قبضے تک کے بار بار سامنے آچکے ہیں لیکن ہم اپنے سب سے قریبی دوستوں کی مدد سے آج بھی قاصر ہیں۔عالمی تجزیہ کار اب یہ کہنے پرمجبور ہیں کہجلد ہی یمن کا مکمل اقتدار اصل حکمرانوں کوملنے والاہے اور جزیرة العرب کے خلاف سب سے بڑی سازش خاک میں مل جانے والی ہے لیکن ہم کہاں کھڑے ہونگے؟
تحریر: علی عمران شاہین