لاہور (ویب ڈیسک) نجی ٹی وی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار سلمان غنینے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کو دو طرفہ تعلقات، وسیع پیمانے پر سعودی سرمایہ کاری اقدامات کے حوالے سے اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ، بیس سال قبل سعودی عرب کی اعلیٰ شخصیت شاہ خالد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ آئل ریفائنری فرٹیلائزر سمیت دیگر شعبوں میں تقریباً بیس ارب ڈالرز کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے ان معاہدوں کے بعد سعودی عرب باقاعدہ سی پیک منصوبوں میں پاکستان کا شراکت دار بن جائے گا۔ اسلام آباد کے ذمہ دار حلقوں کا کہنا ہے کہ پاک سعودی تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ رہے ہیں اور دونوں ملکوں کی دوستی مشکل اور آزمائش کی ہر گھڑی میں پوری اتری۔ پاکستان پر کسی بھی مشکل صورتحال میں سعودی عرب بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر ساتھ کھڑا نظر آیا خصوصاً 1998ئمیں ہندوستان کی جانب سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی جانب سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں پر نہ صرف سعودی عرب نے خوشی کا اظہار کیا بلکہ اس پر لگنے والی عالمی پابندیوں کے بعد اس نے علی الاعلان پاکستان کو مفت تیل دینے کا اقدام کیا۔ پاکستان آرڈیننس مشینری میں الخالد ٹینک بنانے کے عمل میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی اور اب ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے دوستی کے امڈتے جذبہ کے ساتھ یہاں سرمایہ کاری کے حوالے سے موثر اقدامات ہو رہے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد وہ سعودی عرب کے وزیرِ دفاع کی ذمہ داری بھی ادا کر رہے ہیں۔ وہ ولی عہد بننے کے بعد خود سعودی عرب میں بہت سی اصلاحات لیکر آئے ہیں حال ہی میں سعودی عرب نے اپنا پہلا مواصلاتی سیارہ خلا میں بھیجا ہے جسے سعودی دفاع کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ۔ سعودی عرب کے ولی عہد کے حوالے سے عالمی میڈیا انہیں سعودی عرب میں جدت کی نئی علامت کے طور پر دیکھ رہا ہے اور ان کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے روایتی حکمرانوں سے ذرا ہٹ کر لبرل ازم کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ انہوں نے پولیس میں جدید اصلاحات متعارف کرانے کے ساتھ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی۔ اکنامک اینڈ ڈویلپمنٹ کونسل کے چیئر مین کی حیثیت سے انہوں نے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کئے اور ماضی میں نظر انداز کئے جانے
والے شعبوں پر خصوصی توجہ دی۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو یمن کی جنگ، قطر کے ساتھ تنازعات ، لبنان کے ساتھ کشیدگی اور کینیڈا کے ساتھ بھی تعلقات میں سرد مہری کے حوالے سے اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ۔ ان کی اسلام آباد آمد کے موقع پر پاکستان کی منتخب سول اور عسکری قیادت کی جانب سے ان کے ایئر پورٹ پر استقبال کی خبریں آ رہی ہیں ،اپنے دورہ اسلام آباد میں ایک بڑا عوامی استقبالیہ بھی متوقع ہے اور شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد کے موقع پر اسلام آباد میں خصوصی استقبالی اقدامات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے ذمہ دار حلقے سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کے ولی عہد کی پاکستان آمد کے بعدباہمی تعلقات میں گرمجوشی تو بڑھے گی لیکن اس دورہ کے نتیجہ میں پاکستان میں معاشی سرگرمیاں اور سرمایہ کاری میں اور وسعت آئے گی جس طرح کہا جاتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کسی ملک کیلئے قرض کی منظوری دے دے تو پھر ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سمیت دیگر ممالک بھی قرض کی فراہمی کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کہا جا رہا ہے کہ سی پیک پر آئی ایم ایف
اور خود امریکہ کے تحفظات کے بعد ابو ظہبی اور سعودی عرب کی قیادت کی جانب سے پاکستان کیلئے سافٹ کارنر کا اظہار سرمایہ کاری کیلئے اقدامات سے پاکستان پر اعتماد کا رجحان بڑھا ہے خصوصاً امریکہ کی جانب سے پاکستان کیلئے جذبہ خیر سگالی اور دوستانہ تعلقات کا اظہار ہو رہا ہے ۔ وفاقی دارالحکومت میں اس طرح کی خبریں اور تبصرے بھی گردش کر رہے ہیں کہ افغانستان مسئلے کے حل کیلئے پاکستانی تجویز پر عمل شروع کرتے ہوئے واشنگٹن نے اسلام آباد سے دور کھڑی سعودی حکومت اور امارات کو پاکستانی معاشی بحران میں مدد دینے کا اشارہ کیا ہے اور پھر اس کے بعد یکدم پاک سعودی اور پاک اماراتی تعلقات میں بھی برف پگھلی اور سرد مہری کی جگہ پر جوش تعلقات نے لے لی اور ان تینوں ملکوں کے ر ہنما ایک دوسرے کے دورے کر رہے ہیں۔ اس سارے منظرنامے میں ایک اور حقیقت بھی آنکھیں کھولنے کے مترادف ہے اور وہ ہے ہمسایہ ملک چین کی خاموشی، پاکستان کے معاشی فرنٹ پر چائنہ کا ایک لیڈنگ کردار ہے اور اگر خدانخواستہ یہ معاشی پارٹنر شپ اپنے راستے سے اتر گئی تو پھر خطے میں نئی گریٹ گیم کا آغاز ہو جائے گا۔