تحریر: کلیم اللہ
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرکے بعد سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان السعود نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور وزیر اعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف و دیگر سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔ان کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ نمر کی پھانسی کے بعد ایران میں سعودی سفارت خانہ جلائے جانے اور سعودی عرب مخالف مظاہروں کے بعد دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کی صورتحال ہے ۔ محمد بن سلمان کے اس دورہ کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران 34 ملکی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور ایران سعودی عرب کشیدگی کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونیو الی صورتحال سے متعلق تفصیل سے گفتگوکی گئی۔اس دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے واضح طور پر کہاکہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے قریبی تعلقات ہیں اور ان کی سلامتی ہمارے لئے انتہائی اہم ہے۔اس لئے ہم واضح طور پر کہتے ہیں سعودی عرب کی سالمیت کو خطرہ ہوا تو بھرپور جواب دیں گے اور پاکستان کی طرف سے سخت ترین ردعمل آئے گا۔ پاک سعودی عرب دفاعی تعلقات مثالی نوعیت کے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران بھی پاک سعودی تعلقات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر تبالہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی ملکوں کے اتحاد کا قیام خوش آئند ہے جس کاہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ سعودی سلامتی اورعلاقائی خطرے سے نمٹنے کے لیے دونوں ملکوں کے عوام ساتھ ہیں۔
محمد بن سلمان السعود کی عمر تیس سال ہے اور وہ مملکت سعودی عرب کے سب سے کم عمر ترین وزیر دفاع ہیں۔ وہ انتہائی ذہین اور نوجوانوں میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ ان کے متعلق کہاجاتا ہے کہ محمد بن سلمان وہ شخص ہیں جنہوںنے سعودی عر ب میں اسامہ بن لادن کے سحر کو توڑا اور نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ابھرے ہیں۔ ان کی ذہانت کا اعتراف عرب اور بیرونی دنیا کے ممالک بھی کرتے ہیں۔ ان کے دور میں ہی یمن میں حوثی باغیوں کو کچلنے کیلئے کامیاب کارروائیاں جاری ہیں اور حال ہی میں 34ممالک کا اتحاد وجود میں آیا ہے جس میں پاکستان نے بھی کھل کر اپنی شمولیت ظاہر کر دی ہے اور عرب دنیا کی طرف سے پاکستان کے اس فیصلہ کو بہت سراہا جارہا ہے۔ محمد بن سلمان کی عمر صرف بارہ سال تھی جب انہوںنے شاہ سلمان (جو اس وقت ریاض کے گورنر تھے) کی زیر صدارت اجلاسوں میں شرکت کرنا شروع کر دی گھی۔ سترہ سال بعد جب شہزادہ محمد بن سلمان 29سال کے ہوئے تو انہیں ایک ایسے وقت میں وزیر دفا ع کی ذمہ داریاں سونپی گئیں جب مملکت سعودی عرب یمن میں باغیوں کیخلاف جنگ میں داخل ہو چکی تھی اور جس کے خاتمہ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ وہ شاہ سلمان کی تیسری اہلیہ فہدہ بنت فلاح بن سلطان کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ان کے چھوٹے بھائی ترکی بن سلمان السعود ریاض میں قائم تھراوت ہولڈنگ کمپنی کے چیئرمین ہیں جو مختلف کاروبار جن میں ٹیکنالوجی، فوڈ ، اسپورٹس ڈیویلپمنٹ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹرز میں سرمایہ کاری کے کیلئے سعودی عرب کی ایک اہم فرم ہے۔ شہزادہ ترکی سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ کے چیئرمین بھی ہیں۔ سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان ریاض کی شاہ سعود یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں جو اسپیشل سیکٹر اور پبلک سیکٹر دونوں شعبوں میں گہری مہارت رکھتے ہیں۔
ابتدائی تعلیم انہوںنے دارالحکومت ریاض کے اسکول سے حاصل کی۔ ان کا شمارپورے سعودی عرب میں ٹاپ 10 پوزیشنیں حاصل کرنے والے طلباء میں رہا۔ دوران تعلیم انہوںنے مختلف پروگرامات کے اضافی کورسز بھی کئے اور قانون میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ الریاض کے لاء کالج میں گریجوایشن میں قانون اور سیاسیات میں ان کی دوسری پوزیشن تھی۔ شہزادہ محمدبن سلمان نے تعلیم سے فراغت کے بعد ابتدائی سرگرمیاں سرکاری محکمے کے بجائے آزادانہ طورپر جاری رکھیں۔ دس سال تک انہوں نے خود سے کئی فلاحی اور خیراتی کاموں میں حصہ لیا اور اس میدان میں انعامات اور ایوارڈز حاصل کیے۔ نجی شعبے میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے بعد شہزادہ محمد نے سرکاری محکموں میں بھی طبع آزمائی کی۔ 10 اپریل 2007ء کو شاہی فرمان کے تحت انہیں سعودی کابینہ میں ماہرین کونسل کا مشیر مقرر کیا گیا۔
انہوںنے 16 دسمبر2009ء تک اس عہدے پر کام کیا۔ سولہ دسمبر دو ہزار نو کو انہیں شاہی فرمان کے تحت امیر ریاض کا خصوصی مشیر مقرر کردیا گیا۔ تین مارچ 2013ء میں انہوںنے ریاض کے مسابقتی مرکز کے سیکرٹری جنرل کے عہدے کی ذمہ داریاں سنھبالیں اور ساتھ ہی ساتھ شاہ عبدالعزیز سرکریو ٹ بورڈ کے رکن اور ڈیفنس ڈویلپمپٹ سپریم کمیٹی کے بھی ممبر رہے۔شہزادہ محمد بن سلمان کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا اس وقت مشیر مقرر کیا گیا جب وہ امیر ریاض کے عہدے پرتعینات تھے۔ ولی عہد کے دفتر کے انچارج اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کے طورپربھی خدمات انجام دیں۔ تین مارچ 2013ء کو شاہی فرمان کے تحت انہیں ولی عہد کے شاہی دیوان کا منتظم مقرر کیا گیا اورانہیں ایک وزیر کے برابر رتبہ دے دیا گیا۔13جولائی 2013ء کو انہیں وزیردفاع کے دفتر کا سپروائزرمقرر کیا گیا۔ 25 اپریل 2014ء کو شاہی فرمان کے تحت وزیر مملکت، پارلیمنٹ کارکن ،18 ستمبر 2014ء کو شاہ عبدالعزیز بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین کا اضافی چارج سونپا گیا۔23 جنوری 2015ء کو شاہی فرمان کے تحت شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کو خادم الحرمین الشریفین کا مشیر خاص بنا دیا گیا۔
وہ اپنے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی طرح سماجی بہبود اور فلاح انسانیت کے کاموں میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس طرح ان کے والد شاہ سلمان نے اپنے نام سے ایک فلاحی تنظیم کی۔ اسی طرح شہزادہ محمد نے بھی اپنے نام سے ایک فلاحی اور خیراتی ادارہ قائم کیا جسے “مسک الخیریہ” کا نام دیا گیا ہے۔ شہزادہ محمد خود ہی اس تنظیم کے چیئرمین ہیں۔ یہ ادارہ سعودی عرب میں نوجوانوں کو علوم و فنون، ثقافت، سماج اور ٹیکنیکل شعبے میں معاونت کرتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی تنظیم کے علاوہ بھی فلاحی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اس ضمن میں متعدد حکومتی ذمہ داریاں بھی احسن طریقے سے ادا کرتے رہے۔ اب بھی ان کے کندھوں پر سرکاری سطح پر فلاحی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔
شہزادہ محمد شاہ سلمان بن عبدالعزیز یوتھ سینٹر کے چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر ہیں۔ یہ ادارہ ان کے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے نوجوانوں کی ترقی کے لیے قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ شہزادہ محمد شاہ سلمان آباد کاری فائونڈیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سپروائزرہیں۔ یہ تنظیم ماہرین تعلیم، علم سماجیات کے علماء کے تعاون سے تشکیل دی گئی ہے جس کا مقصد کم آمدنی والے شہریوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز فلاحی خدمات کے اعتراف میں اب تک متعدد انعامات اور میڈل وصول کرچکے ہیں۔ سال 2013ء کی فلاحی شخصیت کا ایوارڈ کاروبار میں مدد فراہم کرنے اور نوجوانوں کی ترقی کے لیے خدمات کے صلے میں انہیں دیا گیا۔
یہ ایوارڈ بزنس جریدے “فوربز” کے مشرق وسطیٰ کے ایڈیشن کی جانب سے ہرسال جاری کیا جاتا ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو انہوںنے بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس وقت بھی کہ جب وہ وزیر دفاع کے عہدے پر تعینات ہیں ‘ اسی تسلسل سے کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں اور مسلم امہ میں اتحاد کی عملی کوششوں کے پاسبان سمجھے جارہے ہیں۔ یمن میںباغیوں کیخلاف انہیں زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں تو موجودہ صورتحال میں بھی وہ زبردست سفارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کم عمر ہونے کے باوجود ان کی صلاحیتیں دن بدن نکھر کر سامنے آرہی ہیں اور وہ بھر پور انداز میں سفارتی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ ان کی طرف سے دورہ پاکستان کے دوران کی گئی ملاقاتوں میں بھی اہم فیصلے کئے گئے ہیں جس کے سعودی سالمیت کے دفاع اور خطہ میں امن و استحکام کے حوالہ سے ان شاء اللہ دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا یہ کہنا درست ہے کہ برادر اسلامی ملک کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں ہم امت مسلمہ کے روحانی مرکز کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ پوری پاکستانی قوم ان کی تائید و حمایت کرتی ہے۔
تحریر: کلیم اللہ