کائنات پراللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم ہے جبکہ انسان کواللہ تعالیٰ نے کراہ خاکی پراپنا نائب مقرر کیاہے،نائب کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقی حاکم کے احکامات کی پیروی کرے تاکہ مشکلات ختم اورآسانیاں پیداہوں،انسان دیگرمخلوقات کی طرح اس دنیامیں مسافر کی حیثیت سے آیاہے جسے اپناسفر مکمل کرکے اپنے خالق سے جاملناہے۔ اسلامی تہذیب وتمدن کی اپنی منفرد دحیثیت ہے جس کو دنیا کی کوئی بھی طاقت جھٹلا نہیں سکتی بلکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ غیر مسلم اسلامی تعلمات پر عمل کرنے کو بہت زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ اسلامی تہذیب تمدن عقائد ،اصول ونظریات اورروایات ہی مسلم غیر مسلم معاشرے کے فرق کوواضح کرتیںہیں ۔اسلام کاایک منفرد اور جداگانہ ضابطہ حیات ہے چنانچہ اسلامی تہذیب اسی ضابطہ حیات کی عکاسی کرتی ہے۔اسلامی تہذیب کا سنگ بنیاد حیات دنیا کا یہ تصور ہے کہ انسان کی حیثیت اس کرئہ خاکی میں عام موجودات کی سی نہیںہے بلکہ وہ خالق کائنات کی طرف سے یہاں خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔اس لیے انسان کااصل نصب العین یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک اور آقا (اللہ تعالیٰ)کی خوشنودی حاصل کرے ۔
اسلام انسانوں کے درمیان اونچ نیچ اورہرطرح کے امتیازکی نفی کرتے ہوئے ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح بلاامتیاز جوڑتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اسلامی تمدن کی ایک بڑی خصوصیت اسلامی اخوت یعنی بھائی چارے کا نظریہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رشاد فرمایاہے ۔”بلا شبہ اہل ایمان بھائی بھائی ہیں ۔سوتم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادیا کرو”اسلام سے پہلے انسان جو اشرف المخلوقات ٹھہراجانوروں کی طرح جنس پرستی اور علاقہ پرستی کی زندگی بسر کررہا تھا ۔ٹھیک اُسی طرح جس طرح جانور اپنے علاقے میں داخل ہونے والے اجنبی جانوروں سے جنگ کرتے ہیں اور جس طرح طاقتور جانور قبیلے کا سردار ہوتا ہے جواپنے قبیلے میں صرف مادائوں کورکھتا ہے کمزور نر یاتو بھاگ جاتے ہیں یاپھر مارے جاتے ہیں یہاں تک کہ اکثر جانور اپنے نر بچوں کو بھی ماردیتے ہیں ۔اسلام نے طاقتور کے ساتھ ساتھ کمزوروں کو بھی جینے کاحق دیا ،مرد وعورت کو نکاح جیسے خوبصورترشتہ میں باند کر عورت کومعاشرے میں باعزت مقام دیا ۔جب لوگوں (مسلمانوں) نے اسلامی تہذیب وتمدن کے مطابق زندگی بسر کرناشروع کی توچاروں طرف مسلمانوں کے عدل وانصاف کاچرچاہوگیا،امن و بھائی چارے کے اعتماد کے ساتھ اسلام کا نوردیناکے کونے کونے میں پھیل گیا جوآج بھی ہے اور روزآخر تک رہے گا،
کامیابیاں اُن کے قدم چومنے لگی ۔بدقسمتی سے مسلم حاکموں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور جانور کی طرح جنس پرستی اور علاقہ پرستی کے اصول اپنالئے ،کبھی مسلم حاکم فجرکی نماز کے بعد کسی بیوہ غریب کے گھر کی صفائی کیاکرتے ،اُس کے بچوں کو کھانا پکاکرکھلایا کرتے تھے ،یہاں تک کہ کسی بوڑھے کے منہ میں دانت نہ ہوتے تواپنے منہ میں نوالا چباکر کھلایا کرتے ،حاکم ہونے کے باوجودنہایت سادگی میں زندگی بسرکرنے میں فخر محسوس کرتے اوراُن کے عدل وانصاف کا یہ عالم تھا کہ خود مظلوم کے گھر جاتے اور اُس کی داد رسی کرتے۔ میں یوں کہوں کہ ایک مسلم حاکم اپنی بادشاہت میں سب سے زیادہ عام آدمی کی حیثیت رکھتا تھا تو غلط نہ ہوگا۔آج ہمارے حاکم بات بات پر عام آدمی کی مشکلات کا ذکر کر کے سیاست چمکانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہتے ہیں ۔خوبصورت باتوں کے دھاگے سے عوام کے گرد سیاسی جال بننا اور بات ہے اور عملی اقدامات اور بات ہے ۔ملک خُداداد کی ترقی کاراز اسلامی تہذیب و تمدن کے دائرے میں رہتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول میں پوشیدہ ہے ،علم انسان کو باشعور کرتا ہے اور باشعور انسان علم کو عمل کے راستہ پر ڈال کر دنیا وآخرت کی کامیابیاں سمیٹتا ہے ۔علم وشعور انسان کواللہ تعالیٰ کے احکامات پرعمل پیراہوکرحاصل ہونے والے فوائد سے آگاہ کرتے ہیں۔وقت کڑا اورچلینجززیادہ ہیں ۔مسلم ممالک خاص طورپراسلامی جمہوریہ پاکستان کوجن مشکلات کاسامناہے اُن سے نجات پانے کیلئے سب سے پہلے سودی نظام کوختم کرکے ذکواة کانظام رائج کرناہوگا،
سودکالین دین کرنے والوں کیخلاف اللہ،رسول اللہ ۖ کااعلان جنگ ہے،سودی نظام کی موجودگی میں نہ تودہشتگردی ختم ہوسکتی ہے اورنہ ہی کرپشن ،عدل وانصاف کی فراہمی ممکن ہے اورنہ ہی مہنگائی کنٹرول کی جاسکتی ہے،مختصریہ کہ کوئی چھوٹاسے چھوٹامسئلہ بھی حل نہیں ہوگاجب تک سودی نظام کوجڑسے اکھاڑنہ پھینکاجائے ،آج حاکم کی جان کوایسے خطرات لاحق ہیں کہ وہ سکیورٹی کیلئے ایک بڑی فوج ساتھ لے کرچلتاہے اُس کے پاس دولت اتنی زیادہ ہے کہ وہ سنبھال نہیں پارہاجبکہ دوسری جانب عوام بدسے بدحال ہوتے جارہے ہیں ،صحت ،تعلیم اورغذائی ضروریات پوراکرناناممکن ہوچکاہے۔اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کودل سے تسلیم کرتے ہوئے ملک سے سودی لین دین کے خاتمہ کے اقدامات کئے بغیرنہ توحاکم پرسکون زندگی گزارسکتے ہیں اورنہ ہی عوام خوشحال ہوسکتے ہیں ۔بلکہ ہم تویوں کہتے ہیں کہ سودایسی لعنت ہے جس سے چھٹکاراحاصل کئے بغیر ایک سانس بھی نہ لیاجائے ،سودی نظام ختم ہوگاتواللہ رب العزت ہم سے خوش ہوجائے گااورپھرہماری دُعائوں کوبھی قبول فرمائے گا،دُعائیں قبول ہوں گی توغیب سے مددبھی آئے گی ،غیب سے( اللہ تعالیٰ کی)مددآئے گی توہرمشکل خودبخودآسان ہوجائے گی
تحریر:سید عرفان احمد:لاہور
s.irfanahmad@yahoo.com