سعودی عرب کے سیکیورٹی اداروں نے مبینہ طور پر بیرونی عناصر کے ساتھ کام کرنے کے الزام میں 7 خواتین کو قید کرلیا جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جن خواتین کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے وہ خواتین کے مسائل کے حوالے سے بہت سرگرم تھیں۔
سعودی عرب میں خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی اٹھانے سے ایک ہفتے قبل یہ پیش رفت سامنے آئی جہاں سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے ان افراد کو غدار قرار دے کر ان کی تصاویر آن لائن اور اخبارات میں شائع کردیں۔
خاتون کارکنان سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت زیادہ سرگرمِ عمل تھیں تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مکمل حقوق حاصل کرنے کے لیے ڈرائیونگ کے حقوق ملنا پہلا قدم ہے۔
کئی سالوں سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے فارمز میں ان امتیازی شقوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے جن میں ایک خاتون کو بیرونِ ملک سفر کرنے، پاسپورٹ حاصل کرنے یا پھر شادی کرنے کے لیے اپنے گھر کے محرم سے اجازت لینا ضروری ہے۔
خواتین کے حقوق کی تحریک کو سعودی عرب میں ایک بڑی جمہوری اور شہری حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کے طور پر دیکھا جارہا ہے جہاں بادشاہت میں صرف سعودی فرماں روا یا پھر ولی عہد کو تمام فیصلوں کا اختیار حاصل ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے جن خواتین کے نام جاری کیے ان میں لوجین الحثلول، عزیزیہ الیوسف اور ایمن النجفان شامل ہیں۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ مدیحہ الجورش اور عائشہ المنائی بھی گرفتار خواتین میں سے ایک ہیں اور یہ دونوں خواتین 1990 میں خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دلوانے کے لیے اس تحریک کا حصہ تھیں جس میں 50 خواتین گرفتار ہوئی تھیں اور تمام ہی کارکنان کو اپنی ملازمتوں اور پاسپورٹ سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
گرفتار کی جانے والی پانچوں خواتین سعودی عرب میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی نامور شخصیات ہیں جبکہ کچھ سرکاری جامعات میں کام کرنے والی اور کچھ والدہ اور نانی یا دادی بھی ہیں۔
سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ نے گرفتار خواتین کا نام ظاہر نہیں کیا لیکن بتایا کہ ان خواتین سے بیرونی عناصر سے رابطے کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ یہ خواتین اہم سرکاری عہدوں پر لوگوں کی بھرتیاں کر رہی ہیں جبکہ سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بیرونی عناصر کی مالی امداد بھی کر رہی ہیں۔