تحریر : ابن نیاز
رسول اکرم کے پاس ایک شخص اسلام قبول کرنے آیا۔ عرض کیا کہ کیا اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے؟ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ بالکل۔ اس شخص نے اسلام قبول کر لیا۔ کچھ عرصے بعد پھر اس شخص کے دل میں کوئی ندامت اٹھی۔ بارگاہِ نبوی ۖ میں پیش ہوا عرض کیا، یا رسول اللہ ۖ۔ کیا میرا یہ گناہ بھی معاف ہو جائے گا جو میں نے پورے ہوش و حواس میں ایامِ ضلالت میں انجام دیا تھا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا بالکل۔ پھر اس شخص نے واقعہ سنایا : میرے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی۔ میں گھر پر نہیں تھا۔ بیٹی پیدا ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد گھر آیا۔ میری بیوی نے بیٹی کو چھپا دیا۔ اور عرصہ پانچ یا چھ سال ( راقم کے ذہن سے عرصہ نکل گیا ہے،لیکن اس کے قریب قریب ہی ہے) تک اس نے اس کو میرے سامنے تو کیا، اس کی آواز تک میرے کانوں میں نہ پڑنے دی۔جب وہ پانچ، چھ سال کی ہوئی تو ایک دن بیوی نے باتوں باتوں میں مجھے بتایا۔ مجھے غصہ تو بہت آیا، لیکن ضبط کر گیا۔ میں نے بیوی سے کہا کہ اسے سامنے لائے۔
بیٹی سامنے آئی تو میں نے اسے پیار کیا۔ایک دو دن بعد بیٹی کو بازار سے خریداری کے بہانے ساتھ لے گیا۔ تب تک بیوی کو یقین ہو چلا تھا کہ میں اب اس کو کچھ نہیں کہوں گا۔ بازار جا کر میں نے گڑھا کھودنے کا سامان خریدا۔ پھر ایک ویرانے میں جا کر بیٹی کو ایک طرف بٹھا کر گڑھا کھودنے لگا۔ جب اتنا ہو گیا کہ بیٹی اس میں سما جائے تو اور مٹی سے پر ہو کر اس کا نام و نشان مٹ جائے تو میں نے بیٹی کو اس گڑھے میں کھڑا کر دیا۔آہستہ آہستہ اس پر مٹی ڈالنے لگا۔ پہلے تو بیٹی اس کو مذاق سمجھی، لیکن جب اس کے گھٹنو ں سے اوپر مٹی ہوئی تو وہ رونے لگ گئی۔
لیکن میرا دل پتھر ہو چکا تھا۔ اس کی آہ و بکار نے مجھ پر کچھ اثر نہ کیا۔میں مٹی ڈالتا گیا، اسکی چیخیں بڑھتی گئیں۔ اس نے اپنی میٹھی زبان میںیہ تک مجھ سے پوچھا کہ بابا اس کا قصور کیا ہے۔ اسے کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ لیکن میں خاموش مٹی ڈالتا رہا۔ یہاں تک کہ گڑھا بھر گیا۔ میں نے اپنی بیٹی کو زندہ دفنا دیا۔یہ سنا کر وہ صحابی خود بھی رونے لگے اور اہلِ محفل کو بھی رلا دیا۔ رسول اللہ ۖ نے جب یہ سنا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ”اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ کس گناہ پہ ماری گئی تھی ۔۔” (سورة التکویر ، آیات ٨۔٩)
عرب میں رسم تھی کہ باپ اپنی بیٹی کو نہایت سنگدلی اور بے رحمی سے زندہ زمین میں گاڑ دیتا تھا بعض تو تنگدستی اور شادی بیاہ کے اخراجات کے خوف سے یہ کام کرتے تھے اور بعض کو یہ عار تھی کہ ہم اپنی بیٹی کسی کو دیں گے وہ ہمارا داماد کہلائے گا۔ قرآن نے آگاہ کیا کہ ان مظلوم بچیوں کی نسبت بھی سوال ہوگا کہ کس گناہ پر اس کو قتل کیا تھا۔ یہ مت سمجھنا کہ ہماری اولاد ہے، اس میں ہم جو چاہیں تصرف کریں بلکہ اولاد ہونے کی وجہ سے جرم اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے مانا کہ پہلے زمانے میں بیٹی کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ آج کل کے زمانے میں زندہ تو نہیں گاڑھا جاتا، لیکن جو سلوک اس بیٹی کے ساتھ ہوتا ہے وہ اس سزا سے بدرجہا درجہ بدتر ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ گھر میں بیٹی نہیں بلکہ کسی مسلمان کے گھر میں کوئی سور یا خنزیر نما جانور پیدا ہو گیا ہے، جس سے سارے نفرت کرنے لگے ہیں۔ کیوں؟ کیا واقعی وہی زمانہ لوٹ آیا ہے جب بیٹی کو اسی لیے زندہ گاڑھا جاتا تھا کہ اس کی ذات پر خرچہ نہ کیا جائے۔ اس کو کہیں وراثت میں حصہ نہ مل جائے۔ شاید یہی بات ہے۔
رسول اللہ ۖ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کی یا دو بہنوں کی اس طرح پرورش کی کہ ان کو اچھی تعلیم و تربیت سے نوازا۔ ان کی شادی کی تو وہ قیامت کے دن رسول اللہ ۖ کے ساتھ اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے انگشتِ شہادت اور ساتھ والی انگلی (رسول پاک ۖ نے اپنی انگلیوں کو اس طرح کرکے بتایا)۔ کیا ہمارا اسلام صرف مسجد اور مسجد سے گھر واپس آنے تک رہ گیا ہے۔ کیا ہمارا اسلام صرف پیٹ کا روزہ رکھنا رہ گیا ہے۔ جب حج کیا جاتا ہے تو جیسے ہی کسی کا حج مکمل ہوتا ہے تو وہ گویا اس طرح گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے جیسے کوئی ابھی دنیا میں آیا ہوا نومولود بچہ ہو۔ لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے گھروں میں تو خاص طور پر بیٹیوں کو بیٹی سمجھنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اکثر لوگ معلوم نہیں کس زعم میں بیٹی کو بیٹا کہہ کر بلاتے ہیں۔ شاید ان کے لاشعور میں یہ ہوتا ہے کہ کاش اس کی بجائے کوئی بیٹا ہوتا۔ تو کیا ہمیں ہمارا دین یہ سبق سکھاتا ہے کہ بیٹی کو گناہ سمجھا جائے۔
کیا بیٹی اللہ کی مخلوق نہیں۔ کیا آپ کی حیثیت رسول اللہ ۖ سے بڑھ کر ہے (نعوذ بااللہ، میرے منہ میں خاک) کہ اللہ پاک نے ان کو چار خوبصورت رحمتیں عطا فرمائیں، جن کو دیکھ دیکھ کر رسول اللہ ۖ اپنی آنکھیں مبارک ٹھنڈی کیا کرتے تھے۔ جو ان کے پیارے گھرکی رونق تھیں۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہو چکی تو رسول اللہ ۖ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر کے قریب رہنے کا فرمایا۔ ظاہر ہے دل میں یہی بات تھی کہ جب ان کا دل چاہے گا اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کو ، اللہ کی رحمت کو دیکھ آیا کریں گے۔ کیا شان تھی اس بیٹی کی کہ جب ان کے ابا جان ۖ کہیں سفر پر جاتے تھے تو سب سے آخر میں بیٹی سے مل کر جاتے اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی کے گھر جاتے۔ اگر بیٹی کی شان ایسی نہ ہوتی تو ہمارے لیے تو ”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة۔ بے شک تمھارے لیے رسول اللہ ۖ کی زندگی بہترین نمونہ ہے ۔” توہم نے آپ ۖ کی پیروی کرنی ہے نہ کہ اپنے نفس کی۔
اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جو نفس دنیا میں بھیجا جاتا ہے اس کا سارا رزق اسکے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔ جب اللہ نے فرمادیا تو پھر ہم بیٹی کو بوجھ کیوں سمجھتے ہیں۔ یقینا وہ اپنا رزق اللہ کے حکم سے اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ اس دنیا میںبھوکی سوئے۔ اب اس کا رزق کیسے ملے گا، یہ اس کے والدین کو سوچنا ہو گا کہ اللہ نے کیا ذریعہ بنایا ہو گا جو ان تک اس کا رزق پہنچے۔ ایک شخص کے مالک نے کسی بات سے خوش ہو کر اس کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا۔ چند دن گزرے تھے کہ مالک کسی بات پر ناراض ہو گیا۔ تو اس کی تنخواہ کم کر دی۔ اس شخص نے کوئی گلہ بھی نہ کیا۔ اگلے دن مالک نے بلا کر اس سے پوچھا کہ جب تنخواہ بڑھائی تو بھی تم نے کچھ نہ کہا، اب جب تنخواہ کم کی تو بھی کچھ نہ بولے۔ اس شخص نے کہا کہ مالک۔ جب آپ نے تنخواہ بڑھائی تھی تو اس دن اللہ نے اولاد سے نوازا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ اللہ نے اس صورت میں اس کے رزق عطا کیا ہے۔ اور جب آپ نے تنخواہ کم کی تو اس دن میری والدہ کا انتقال ہوا تھا۔ تو یہ بھی سمجھ آگئی کہ اس کا رزق اس دنیا سے اٹھ گیا ہے۔
بیٹی کو بیٹی سمجھیں۔ وہ کبھی بوجھ نہیں نہیں ہوتی۔ وہ تو گھر کے آنگن میں ایک پھول ہوتی ہے۔ جس کو دیکھ کر، جس کو سن کر آپ کو سکون ملتا ہے۔ یہ بیٹی ہی ہوتی ہے جب آپ کی مشکلات میں شاید آپ کا بیٹا آپ ساتھ نہ دے، لیکن بیٹی آپ کی مشکلات کو اپنا سمجھ کر اس کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتیہے۔ اس کی اچھی اور بہترین تعلیم و تربیت آپ کا فرض ہے۔ کیونکہ بیٹے نے تو نوکری کرنی ہے، ایک گھر سنبھالنا ہے لیکن بیٹی نے ایک نسل کی تربیت کرنی ہوتی ہے۔جو بیٹی یا بہن کو بوجھ سمجھتے ہیں چاہے وہ والدین ہیں، بھائی ہیں وہ اللہ کے سخت گناہ گار ہیں۔
وہ کیا سمجھتے ہیں کہ اللہ کے دربار میں ان کو جواب نہیں دینا پڑے گا ۔ ہر گز نہیں۔ جیسا کہ اوپر سورة التکویر کی آیات بیان کی ہیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ صرف بیٹی کو گاڑھنے کی صورت میں ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے والے سے بھی اسی طرح سخت پوچھ گچھ ہوگی۔ تو خبردار رہو کہ یہ بہت شدید پوچھ ہوگی۔ اللہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
تحریر : ابن نیاز