تحریر : شاہ بانو میر
ایک دانشور کسی گہری سوچ میں غرق ساحل سمندر پر کسی گتھی کو سلجھانے کی کوشش میں مصروف تھا – اپنی دھن میں مست وہ آسمان کی لا متناہی وسعت کو دیکھتا آگے بڑہتا جا رہا تھا اپنی گہری سوچوں سے بیدار اس وقت ہوا جب اس کے پاوں تلے بے شمار مچھلیاں اسے محسوس ہوئیں ملگجا سا اندھیرا ابھی قائم تھا لیکن غور کرنے پر اسے ساحل سمندر پر دور دور تک مچھلیوں کے انبار دکھائی دئے جو شائد تند و تیز لہریں ساحل پرپٹخ کر واپس جا چکی تھیں – ابھی وہ ہزاروں کی تعداد میں پھیلی ان مچھلیوں پر غور کر رہا تھا
جو تڑپ رہی تھیں اور بہت سی ساکن ہو چکی تھیں – کہ اسے دور ایک انسان بار بار نماز کی طرح رکوع میں جھکتا ہوا محسوس ہوا – اسے تعجب ہوا کہ اس وقت اتنی صبح وہ تو کسی گتھی کو سلجھانے ساحل پر آیا لیکن یہ کون ہے جو اتنی صبح عبادت کر رہا ہے ؟وہ چلتے ہوئے اس کے قریب پہنچا کی دیکھے ماجرہ کیا ہے؟ کیا دیکھتا ہے ایک شخص زمین پر بکھری ہوئی تڑپتی ہوئی مچھلیوں میں سے ایک کو پکڑتا ہے
اور دور سمندر کے پانی میں اچھال دیتا ہے اس دانشور کو بہت حیرت ہوئی اس نے اس کے قریب جا کر پوچھا تم عجیب آدمی ہو ہزاروں کی تعداد میں پھیلی ہوئی ان مچھلیوں کو تم بچا سکتے ہو؟ کیوں خود کو ہلکان کر رہے ہو ؟اس آدمی نے بغیر نگاہ اٹھائے مسلسل کام کو جاری رکھا یہ اس کے قریب ہی کھڑا رہا کہ جواب ہر صورت چاہیے سوال دوبارہ دہرانے پر ہاتھ میں پکڑی ہوئی تڑپتی مچھلی کو دور سمندر میں اچھالتے ہوئے اُس شخص نے کہا سب کو تو نہیں البتہ دیکھو اس ایک کو تو بچا لیا ہے
دانشور لاجواب ہوگیا آیئے نئے سال پر ہم پختہ عہد کریں کہ ہم نے باشعور امت بنانے میں قرآن پاک کا پیغام اس کی ہدایت سنت کی فضیلت کو دنیا بھر میں پھیلانے کی کوشش کرنی ہے اور اگر اس میں کامیاب نہ ہوں یا وسائل محدود ہوں تو ہم نے کسی ایک کو ضرور راہ ہدایت کی طرف لانا ہے یاد رکھئے “”کسی ایک”” کو ضرور شعور والی زندگی سے جوڑنا ہے انشاءاللہ
تحریر : شاہ بانو میر