تحریر: شاہد شکیل
دنیا بھر میں تقریباً ہر انسان وہ غریب ہو یا امیر سب کا یہی رونا ہے کہ ہمارے اِخراجات بہت بڑھ گئے ہیں گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتا مہنگائی زیادہ ہو گئی ہے اتنی کم آمدنی میں گزارہ کرنا مشکل ہو گیا ہے حالانکہ گھر کے تمام افراد مختلف جاب بھی کرتے ہیں پھر بھی اخراجات اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ آمدنی کا پتا نہیں لگتا وغیرہ،ایسے حالات میں کئی افراد دل برداشتہ ہو جاتے ہیں اور قرضوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور کئی ایسے افراد بھی ہیں جو مختلف طور طریقوں سے بچت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون سا ایسا لائحہ عمل یا حکمت عملی اختیار کی جائے کہ اخراجات میں کمی ہو اور قرضوں کی نوبت نہ آئے ۔
دنیا بھر میں ہر انسان عورت ہو یا مرد بچہ ہو جوان یا عمر رسیدہ جب تک خواہشات پر قابو نہیں پایا جائے گا تنگدستی اور اخراجات کے جھنجھٹ سے چھٹکارہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔گزشتہ دنوں جرمنی کے ایک معروف میگزین میں کہ اخراجات میں کیسے کمی کی جاتی ہے پر ایک مضمون شائع ہوا کہ جرمن کیسے بچت کرتے ہیں کیونکہ مہنگائی ، توانائی کے بحران اور روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہونے کے علاوہ بنیادی سہولیات مثلاً پانی ،گیس اور بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ نے کمر توڑ کہ رکھ دی ہے اور جرمن ہر ممکن طریقے سے بچت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مثلاً کئی افرادشدید سردی میں ہیٹر آن نہیں کرتے یا کھانے کی پلیٹ دھونے کی بجائے چاٹتے ہیں تاکہ پانی اور بجلی کی بچت ہو،جرمن انٹر نیٹ پورٹل نے تحقیق کے بعد میگزین کو بتایا کہ چوہتر فیصد جرمنوں کو قطعی علم نہیں کہ وہ روزانہ کتنی بجلی ،پانی اور گیس استعمال کرتے ہیں لیکن سب کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی میں نمایاں فرق ظاہر ہونا چاہئے کچھ افراد لا علمی میں بچت کی بجائے زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں
کچھ افراد اس لئے انرجی بچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اخراجات زیادہ ہو گئے ہیں آمدنی کم ہے لہذٰا بچت کی جائے ،کلاسک طریقے سے جن کمروں میں لائٹ کی ضرورت نہ ہو آف کر دی جائے یا برش کرتے وقت بہتے پانی کو بند کر دیا جائے یا اگر کھڑکیاں کھلی ہیں تو ہیٹر آف ہونے چاہئیں وغیرہ ،انٹر نیٹ پورٹل کی رپورٹ کے مطابق ستر فیصد جرمن بچت کرنے کیلئے یخ بستہ سردی میں ہیٹر آن کرنے کی بجائے موٹے موزے یا گرم کپڑے گھروں میں استعمال کرتے ہیں تاکہ توانائی کے علاوہ اخراجات میں کمی ہو ،ساٹھ فیصد افراد سبزیوں اور فروٹس کو نلکے کے بہتے پانی میں دھونے کی بجائے پلاسٹک کے برتن میں پانی جمع کر کے دھوتے ہیں تاکہ پانی کی بچت ہو اور کم سے کم پانی بجلی کا بل آئے ،چھیالیس فیصد اوون یا بجلی کے ہیٹر پر پانی گرم کرنے کی بجائے الیکٹرک واٹر بوائلر میں پانی ابالنے کے بعد نوڈلز ،انڈے ، گوشت اور سبزیاں تیار کرتے ہیںتاکہ بجلی کے چولہے کو کم سے کم استعمال کیا جائے اور میٹر کو بریک لگے،
پینتالیس فیصد رات کے اوقات میں ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں ،تیس فیصد کا کہنا ہے توانائی کی بچت کیلئے شام کو موم بتیوں کا استعمال ضروری ہے،اٹھائیس فیصد جرمن اپنے سمارٹ فونز ،ٹیبلٹس اور لیپ ٹاپ گھر میں چارج کرنے کی بجائے دفتروں ،فیکٹریوں ،یونیورسٹیز یا عوامی مقامات پر چارج کرتے ہیں جو کہ ممنوع ہے لیکن توانائی کی بچت کیلئے ان کے پاس کوئی چارہ نہیں، اکیس فیصد موسم سرما میں ہیٹر یا گیس کا استعمال ہی نہیں کرتے بلکہ گرم کپڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے،نو فیصد نے بخوشی اپنی اس عادت کو بیان کیا کہ کھانے کے بعد ہم اپنی پلیٹ کو دھونے کی بجائے چاٹتے ہیں تاکہ پانی بچایا جائے ،نو فیصد کا کہنا ہے ہم اپنی واشنگ مشین کے پانی کو جمع کرنے کے بعد اس سے ٹوائلٹ کی صفائی مثلا کموڈ وغیرہ کو دھونے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کئی افراد ہفتے میں صرف ایک بار غسل کرتے ہیں اور زیادہ تر ڈیو سپرے استعمال کیا جاتا ہے خواتین کے بارے میں بتایا گیا کہ کوسمیٹک کی اشیاء پر بغیر سوچے سمجھے پیسے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں ہر موسم میں نئے جوتوں کی خریداری کی جاتی ہے لیکن بجلی کی بچت کیلئے شام کو کینڈل لائٹ استعمال کی جاتی ہے دوسری طرف مرد اپنی گاڑیوں کی ہر تین یا چار ماہ بعد انسپیکشن کروانے پر سینکڑوں یورو کا ضیاع کرتے ہیں لیکن ڈھنگ کی شرٹ یا اچھا جوتا خریدنے کیلئے رقم موجود نہیں ہوتی یا ہفتے میں ایک بار غسل کیا جاتا ہے تاکہ شیمپو اور پانی بجلی کی بچت ہو۔
انسانی فطرت ہے کہ دوسرے انسان کی بری چیز سونا لگتی ہے اپنی قیمتی اشیاء کو مکمل طور پر رد کر دیا جاتا ہے جہاں بچت کی ضرورت ہو وہاں پیسا پانی کی طرح بہایا جاتا ہے مثلاً ریستوراں میں چائے کافی یا کھانے کے بعد خاتون ویٹر کو دل کھول کر ٹپ دی جاتی ہے ،کھلی فضا میں چہل قدمی یا جوگنگ کرنے کی بجائے فٹنس سینٹر کا رخ کیا جاتا ہے اور سینکڑوں یورو مشینوں کے استعمال پر ضائع کئے جاتے ہیں اور ہر ماہ کی بیس تاریخ سے آمدنی کا گراف ڈاؤن ہونا شروع ہو جاتا ہے پچیس تاریخ کے بعد جان کے لالے پڑتے ہیں اور سب یہی کہنا شروع کرتے ہیں کہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے اخراجات پورے نہیں ہوتے حکومتیں روز بروز عوام کی کھال اتاررہی ہیں ،اب کیا کیا جائے ،
کہاں جائیں، کیا کھائیں وغیرہ ۔جب تک انسان فضول خرچی اور خواہشات پر قابو نہیں پائے گا اور مادہ پرستی کو ذہن سے نہیں نکالے گا ایسا زندگی بھر رواں رہے گا اور مزید مشکلات پیدا ہونگی ممکنہ طور پر خاندانوں میں کشیدگیوں کی ابتدا ہو گی اور حالات بدتر ہونے کے امکانات پیدا ہونگے ۔سوچنا یہ ہے کہ بچت کرنے کیلئے کیسے ،کب،کہاں اور کس تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل بھی کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور نتائج بھی مثبت آئیں؟۔
تحریر: شاہد شکیل