لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں..اگرچہ میاں نوازشریف اور شہبازشریف منقار زیرِ پَر ہیں لیکن ان کے چاہنے والے اور پرستار اب بھی ’’بے شمار، بے شمار‘‘ کی رٹ لگا رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے یہ کہہ کر اپنا ’’منشور‘‘ واضح کر دیا ہے کہ اگر شہبازشریف کو قائدِ حزب اختلاف کی مسند سے اتارنے کی کوشش کی گئی تو
نہ صرف ہم یہ سارا سسٹم منجمد کر دیں گے بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ ’’بہت کچھ‘‘ کیا ہے جو ہو سکتا ہے اس پر تخیل کے گھوڑے دوڑائے جا سکتے ہیں۔۔۔ مریم اورنگزیب بھی تقریباً یہی لائن Tow کر رہی ہیں۔
ماضی ء قریب میں ایک انہونی یہ بھی ہو چکی ہے کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں میثاقِ جمہوریت کے نام پر ایک ہو چکی ہیں۔آپ کسی بھی جمہوری سیاسی نظام کو دیکھ لیں۔ امریکہ اور فرانس میں صدارتی اور برطانیہ اور انڈیا میں پارلیمانی نظامِ سیاست چل رہے ہیں۔ ان چاروں ممالک کی تاریخ میں کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ دو بڑی سیاسی پارٹیاں ایک ہو جائیں اور ’’متحدہ اپوزیشن‘‘ بنا کر سسٹم کو منجمد کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں؟۔۔۔ یہ طرفہ تماشا پاکستان ہی میں ہو رہا ہے۔ آج اگر نئے انتخابات کی کال دے دی جائے تو کیا یہ ’’میثاق‘‘ سلامت رہے گا؟ اگر نہیں تو یہ مشترکہ ڈھونگ کیوں رچایا جا رہا ہے۔پاکستان کے سارے سیاسی مہرے جہاندیدہ ہیں، ان کی یہ فکر تو کھائے جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی میں بہت سے ایسے پرانے مہرے بھی شامل کر لئے گئے ہیں جن کا ماضی بے داغ نہیں۔
بندہ پوچھے اگر یہ مہرے پی ٹی آئی میں شامل ہو کر کوئی فائدہ اٹھا رہے ہیں تو کیا یہ کوئی نئی یا انہونی بات ہے؟ عمران خان اور ان کے درجن بھر ساتھیوں کو چھوڑ کر باقیوں کا ماضی دیکھیں تو یہ سب مہرے جیتنے والے گھوڑے پر ’’رقم‘‘ لگاتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اسی کو تو ’’جمہوریت کا حسن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اقبال کے اس مشہور مصرعے کی تجسیم دیکھنی ہو تو ان مہروں کو دیکھ لیں کہ یہ اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے‘‘ پر کس جانفشانی سے عمل پیرا ہیں! سوچتا ہوں کہ کیا متحدہ اپوزیشن یہ انتظار نہیں کر سکتی کہ پی ٹی آئی کو ایک ٹرم پوری کرنے دے؟ سسٹم ’’منجمد‘‘ کرنے والے اصل انجماد گر ہر گز نہیں چاہیں گے کہ وہ سسٹم کو ڈی ریل کریں یا منجمد کر دیں۔ اللہ جانے خواجہ صاحب کو یہ خواب کیسے آ گیا کہ وہ سسٹم منجمد کر دیں گے! اگر اسمبلی کے توسط سے سسٹم منجمد کرنا ہے تو یہ بھی آزما کر دیکھ لیں۔ جن قوتوں نے سسٹم منجمد کرنے کا کھیل چار بار کھیلا ہے وہ اب پانچویں بار ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اب کوئی سیاسی دھڑا ان کو مجبور بھی کرے گا تو ان کے پاس کئی اور ایسے ’’چولہے‘‘ موجود ہیں جن پر جمہوری ہنڈیا میں دھری منجمد برف پگھلائی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی معیشت اگر ٹیک آف کرنے لگی ہے تو اس کو ایسا کرنے کی مہلت ضرور دینی چاہئے۔اگر وہ لوگ اپنی ٹرم میں ایسا نہ کر سکے تو پھر سسٹم منجمد کرنے والوں کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ اُن تِلوں میں بھی تیل نہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے بازی گروں کو اپنے عقابوں کو خاموش کر دینا چاہئے۔جن بازی گروں کے پنجروں میں یہ باز اور عقاب بند ہیں ان کو صبر سے کام لینا چاہئے۔ اگر ان کے شاہین شکار پر جھپٹ کر ناکام واپس آئے تو یہ بازی گروں کی دہری موت ہو گی، اس سے بچنا چاہئے۔ دونوں مین سٹریم پارٹیوں(نون لیگ اور پی پی پی) میں ابھی چند لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ٹیکٹیکل پس قدمی کو خود کش حملے پر ترجیح دیں گے۔کتابِ جنگ و جدل پڑھ کر دیکھیں، کئی دفعہ ٹیکٹیکل پسپائی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ دور اندیش کمانڈر وہی ہے جو اس پسپائی کو قبول کرے اور سٹرٹیجک کامیابی کا منتظر رہے۔میرے سامنے ایسی بہت سی کتابیں پھیلی ہوئی ہیں جن میں عظیم لوگوں نے اندھا دھند عجلت کرنے کی بجائے صبر سے کام لیا اور پھر سٹرٹیجک لیول پر ان کو جو کامیابی ملی وہ اتنی مستقل اور دیرپا تھی کہ ان کو تاریخ میں ’’عظیم‘‘ بنا گئی۔