لاہور (ویب ڈیسک) چاہے اپوزیشن جاری عذاب احتساب پہ کیسا ہی شور و غوغا کئے، عمران خان کی حکومت کی قسمت کا ستارہ خوب چمک رہا ہے۔ دھن ہے کہ ٹوٹ کر اور وہ بھی موسلا دھار برس رہا ہے۔ ابھی سعودی عرب سے تین میں سے دو ارب امانتی ڈالرز اسٹیٹ بینک میں جمع ہوئے ہی تھے نامور کالم نگار امتیاز عالم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور تیسرے ارب ڈالر کا انتظار تھا کہ متحدہ عرب امارات سے سرکاری ایجنسی کی خبر ہے کہ وہاں سے بھی برادرانہ شفقت اُمڈ آئی ہے اور 11ارب درہم یا تین ارب ڈالرز پاکستان کے سوراخ زدہ خزانے میں جمع ہونے کو ہیں۔ البتہ یہ واضح نہیں کہ یہ قرضِ حسنہ ہے یا پھر سودی قرضہ ہے تو کس شرح پہ؟ اخباری اطلاع کے مطابق شاید شرح سود 3.2 فیصد ہو۔ عمران خان صاحب کے قطر کے حالیہ کامیاب دورے کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ اس کارِخیر میں اُدھار گیس یا پھر ڈالرز کی ویل تو ضرور پڑے گی۔ نیک بخت حکومت کے مقدر اچھے ہیں کہ سالہاسال سے لگی گنجلک تذویراتی گرہیں ڈھیلی پڑتی جا رہی ہیں اور مشکلیں ہیں کہ آسان ہونے کو ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں افغان طالبان، امریکہ، پاکستان اور سعودی و خلیجی نمائندوں کے مابین ہونے والے اجلاس میں برف پگھل گئی ہے۔ ہر دو اطراف قیدیوں کو رہا کرنے پہ تیار ہو گئی ہیں اور امریکہ فوجوں کی واپسی کے لیے نظام الاوقات دینے پہ بھی مائل لگتا ہے۔ بشرطیکہ طالبان عالمی دہشت گردی کے سدباب، مخلوط مصالحتی حکومت میں شرکت اور چھ ماہ کے لیے جنگ بندی پہ راضی ہو جائیں۔ گو کہ افغان حکومت کے وفد سے ملاقات کرنے پہ افغان طالبان ابھی راضی نہیں، توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے اجلاس تک (جو جنوری میں سعودی عرب میں منعقد ہوگا) یہ معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب صدر ٹرمپ نے شام سے فوراً فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا ہے اور کابل سے خبر ملی ہے کہ امریکہ افغانستان میں 14000 فوجیوں کی تعداد شاید جلد ہی آدھی کر دے۔ امریکہ کی اس عجلت پہ ماہرین کی پریشانی یہ ہے کہ ایسے میں جب امریکہ خطے سے اپنا بوریا بستر گول کرنے پہ اتنی جلدبازی کر رہا ہے تو طالبان کیوں جنگ بندی پہ راضی ہوں گے۔ غالباً طالبان کی جنگ بندی پہ آمادگی کے ساتھ ہی، امریکی بھی واپسی کے ایک شیڈول پہ راضی ہو جائیں گے۔ وزیراعظم اور اُن کے جانثار کیسی ہی عمران خان کے ٹرمپ کو جوابی منہ توڑ ٹویٹ کی کرشماتی شوخیاں بھگارا کریں، اصل میں یہ اصلی تے وڈے ٹرمپ کی قلابازیاں ہیں جو خطے میں نئے امکانات کو جنم دے رہی ہیں۔ خیر سے پاکستان کی یمن کی خانہ جنگی میں پھنس جانے کی جو ممکنہ آفت تھی وہ بھی ٹل گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حوثی ملیشیا اور یمن حکومت کے مابین جنگ بندی کروا دی ہے۔ برادر اسلامی ملکوں سے من و سلویٰ کی آمد ہو یا یمن میں فائر بندی اور امریکہ کی شام سے روانگی پر طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت کے امکانات، ان سب کے تانے بانے مجھے آپس میں جڑے ہوئے لگتے ہیں۔ برادر ملک کا دفاع ہو یا خلیج کا استحکام، آخر مسلم دُنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور دُنیا کی چھٹی بڑی فوج اس کارِخیر میں اپنا حصہ کیوں نہ ڈالے گی؟ ویسے بھی ہماری دست نگر معیشت مفت خوری پہ چلتی ہے، پرائیویٹ سیکٹر ہو یا پبلک سیکٹر۔ پہلے مغرب اور امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں کی بھیک پہ گزارا تھا، تو اب اپنے برادر مسلم ممالک کی زکوٰۃ و خیرات ہی سہی۔ وہ ثواب حاصل کریں اور ہم اسلامی فریضہ انجام دیں۔ اوپر سے مدنی ریاست کا نظریاتی نعرہ۔ بھلا کوئی اپوزیشن سے پوچھے کہ مدنی ریاست کے پاکستانی ایڈیشن میں کرپشن زدہ لوگ کیسے بچ سکتے ہیں۔ عمران خان نے کرپشن اور کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف جو انتھک مہم چلائی تھی، اس کا مقصد بھی تو پورا ہونا ہے یا کرانا ہے۔ ویسے بھی یہ تاریخ کا کرم ہے یا پھر قومی سلامتی کی ریاست کا نیا موڑ، پاکستان میں ریاست کے تینوں ستون انتظامیہ، عدلیہ اور آدھی مقننہ پہلی بار ایک صفحے پر ہیں اور دشمن کی پانچویں پیڑھی کی چومکھی جنگ کو شکست دینے کو تیار ہیں۔
اک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جا رہی ہے جس میں شیر و بکری ایک ہی گھاٹ پہ پانی پیتے نظر آ رہے ہیں۔ جس ڈاکٹرائن کے بڑے قصے سُنتے تھے، وہ اب رو بہ عمل ہے۔ ایک پاک صاف وزیراعظم، متحرک عدلیہ اور چاق و چوبند افواج پاکستان مل کر ایک ایسی سیاسی ساخت تشکیل دے رہے ہیں جہاں ریاست و حکومت باہم شیر و شکر ہو گئی ہیں۔ دو بڑی جماعتوں کی ’’کرپٹ لیڈرشپ‘‘ اپنے انجام کی جانب رواں ہے اور جن کے پاس کسی تحریک کا اخلاقی جواز بھی نہیں۔ اور اگر کابینہ نالائق ثابت ہو رہی ہے تو اس میں کیا مضائقہ کہ ان کی جگہ پارسا اور جہاںدیدہ ٹیکنوکریٹس جلد یا بدیر فرائضِ منصبی سنبھال لیں۔ ویسے بھی مرکز اور پنجاب میں حکومتوں کے پاس کوئی مستحکم اکثریت نہیں جو پر کاٹے جانے پہ کوئی واویلا کر سکیں۔ اگر یہ تیسرا تجربہ بھی ناکام رہتا ہے تو پھر مزید مثبت نتائج والے انتخابات تو کہیں نہیں گئے۔لیکن حالات کا کیا کیجیے، ان پر کب کسی کا کنٹرول رہا ہے۔ مملکتِ خداداد میں کیا نہیں ہے جو نہیں ہوا اور اب نہیں ہوگا۔ سوچا کچھ جاتا رہا تھا، ہوتا کچھ اور رہا!! بھلا دو بڑی جماعتوں کو پنجاب اور سندھ سے آپ کیسے نقشے سے غائب کر سکتے ہیں اور ان کے تعاون بنا مقننہ اپنا قانون سازی کا کام کیسے کر سکتی ہے۔ ویسے بھی مسلم لیگ ٹوڈیوں کی جماعت ہے اور پیپلز پارٹی کا انقلابی ڈنک کبھی کا نکل چکا۔ ایسے میں بے چاری بیوہ جمہوریت کا رونا کون سنے گا جب وہ سیاست کے گناہوں کا بوجھ اُٹھانے سے رہی۔ نئے پاکستان میں مارشل لا کی ضرورت ہے نہ کھلی جمہوری بیباکی کے لیے کوئی جگہ۔ میڈیا ویسے ہی بحران کی لپیٹ میں ہے اور دُم دبا کر سیاستدانوں کی مٹی پلید کرنے کے فریضے کو ادا کرنے پہ مجبور۔ جس استقامت سے عدلیہ نے بدعنوانیوں، بدانتظامیوں اور بدمعاشیوں پہ عرصۂ حیات تنگ کیا ہے وہ سلسلہ چیف جسٹس کی تبدیلی سے رُکنے والا نہیں۔ اور جس طرح سے افواجِ پاکستان نے جمہوریت کا بول بالا کیا ہے، اُس پہ کسی کو اعتراض کرنے کی جرات کہاں۔ یہ سب تو سمجھ میں آ رہا ہے، لیکن وہ جو موصوفہ ’’تبدیلی‘‘ تھیں، وہ جانے کہاں غائب ہو گئی ہیں۔ اتنے یوٹرن پہ یوٹرن لیے گئے ہیں کہ اب سجھائی نہیں پڑتا کہ عہد کیا کیا گیا تھا اور عہد خلافی کیا ہو رہی ہے۔ لوگوں نے سوچا کہ چلو کاسۂ گدائی ہی سہی اور مہنگائی و بیروزگاری اور بجلی کے بڑھتے بلوں سے تو جان چھوٹے گی۔ ابھی پہلے ضمنی بجٹ کے زخم ہرے تھے کہ دوسرے ضمنی بجٹ کی تیاریاں ہیں۔ اوپر سے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں نرمی کے امکانات معدوم۔ اس کے باوجود کہ آج تیل کی قیمتیں تاریخی طور پر نیچے آ رہی ہیں، پھر بھی تیل، بجلی اور گیس کے نرخ اوپر چڑھتے جا رہے ہیں۔روزگار تو کیا ملنا تھا، فقط کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے نتیجے میں 12 لاکھ خاندان بے روزگار ہو گئے ہیں۔ عوام بے چین ہیں اور تلملا رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں ہیں کہ اپنے لیڈروں کے گناہوں کا بار اُٹھانے پہ مجبور۔ ایسے میں نئے پاکستان میں کسی تبدیلی کی گنجائش کہاں؟ ڈالروں کے من و سلویٰ کی بارش میں، لوگ چند قطروں سے بھی محروم رہیں تو چین کہاں نصیب۔