آج کچھ بات کرتے ہیں جعلی پیروں کی کہ جنہوں نے تقریبا پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور لوگ ان پر اندھا اعتماد کر رہے ہیں۔میرے مطابق ان جعلی پیروں کا دین ہے کہ ایمان۔یہ عوام کے جذبات سے گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں۔انہوں نے نجانے کتنے ہنستے بستے گھر برباد کیے ہیں۔کتنے لوگوں کو ذہنی مریض بنایا،کتنے لوگوں کی مائیں،بہنوں اور بیٹیوں کی عزت سے کھیلے۔کیا پیری مریدی کے نام پر اتنا گھناؤنا اور گھٹیا دھندہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے۔جب عطائیوں کے خلاف ایکشن لیا جا سکتا ہے تو یہ جعلی پیر تو ان سے بھی بڑے مجرم ہیں۔ان کی تو معافی تلافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان کو عبرتناک سزا دی جانی چاہیے تاکہ کل کو کوئی بھی شخص خواہ وہ مسلمان ہو یا ہندو،عیسائی ہو یا سکھ اس گھٹیا اور شرمناک دھندے کے لیے سوچے بھی نہ اور نہ ہی کوئی ایسا دھندہ کرے۔بے شک جعلی پیروں پر عوام کا بھروسہ کرنا کم عقلی ہے۔جب آگے کنواں نظر آ رہا ہو تو خود کو یا اپنے رشتہ داروں کو اس گہرے کنویں میں دھکیلنا جہالت ہے۔ان سرحدوں پر بھروسہ کرنے کے بعد بندے کے پاس سوائے افسوس کے کچھ نہیں رہتا۔عمر بھر کی جمع پونجی ان جعلی پیروں کے قدموں میں ہوتی ہے اور گھر میں دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے۔میڈیا ٹیمیں لاتعداد جعلی پیر منظر عام پر لائی ہیں مگر افسوس کہ عوام ان جعلی پیروں کے قدموں سے دور ہونے کا نام نہیں لے رہی۔سانپوں والے بابا ہوں یا کچھوے والے۔عوام کچھ سوچے سمجھے بغیر ہی ان پر بھروسہ کرنے لگتی ہے اور یہاں تک کہ انہیں اپنی چار دیواری تک بھی رسائی دے دیتی ہے لیکن یہ تو سانپ ہوتے ہیں ان کا مقصد تو ڈسنا ہوتا ہے چاہے ان کی کتنی قدر کی جائے۔عوام کو ایسا ذہنی مریض کرتے ہیں کہ وہ ان کی جھولی اپنی جمع پونجی سے خالی ہونے کی نہیں دیتی۔یہی وجہ ہے کہ آج ان گنت جعلی پیر پر گلی محلے میں موجود ہیں اور اپنا کاروبار سرگرم کر رکھا ہے۔عوام بھی بغیر کسی تحقیق دور دراز سے ان پیروں کے قدموں میں آ گرتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ خاندانوں میں زیادہ حالات خراب بھی انہیں جعلی پیروں کی وجہ سے ہوتی ہے۔تقریبا سب کا ہی کہنا ہوتا ہے کہ فلاں رشتہ دار(دیور،نند،بہو،ساس،بھابھی وغیرہ)نے آپ پر کالا جادو کر دیا ہے۔اس جادو کو روکا نہ گیا تو آپ کا گھر برباد ہوجائے گا۔اسی طرح رشتہ داروں کی آپس میں ناچاقیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔بہت سے قتل تو بابا جی کے اس فرمان سے ہوتے ہیں کہ فلاں رشتہ دار نے آپ پر کالا جادو کیا ہے۔بس یہی سننا یار ہے اور عوام بغیر کسی تحقیق کے اپنے ہی رشتہ داروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آخر کار بات قتل تک پہنچ جاتی ہے۔کبھی کبھار رشتہ دار قتل بھی کر دئیے جاتے ہیں بعد میں اپنے اس گھناؤنے کارنامے پر سوائے ماتم کرنے کے کچھ نہیں رہتا۔جب ان جعلی پیروں کے آستانوں پہ عوام کا جم غفیر دیکھا جاتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ خالق کائنات کی مخلوق کا بھروسہ خدا کی بجائے ان جعلی پیروں پہ کیوں ہے۔آج اگر ان گنت جعلی پیر اپنا آستانہ بنائے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں تو اس کی عوام واحد ذمہ دار ہے۔جن کا جعلی پیروں پہ اندھا اعتماد ان کو قوت سے رہا ہے۔جعلی پیر دن رات پیسا کما رہے ہیں۔اگر عوام ان کی تھوڑی تصدیق کرے۔اگر ان کا کوئی اتہ پتہ پوچھے تو پھر خود بخود اندازہ ہو ہی جائے گا آیا کہ یہ جعلی پیر ہیں یا اصلی پیر ہیں۔یہ جعلی پیر صرف اور اور اپنے بچوں کے مستقبل کا سوچ رہے ہیں۔اس غیور عوام کا نہیں کہ جو اپنا سب کچھ ان پر نچھاور کرکے سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔اتنی ذہین عوام کہ جسے موٹرسائیکل کی ٹینکی ہلانے سے پٹرول کی مقدار معلوم ہوجاتی ہے ان جعلی پیروں کے ہتھے کیسے چڑھ جاتی ہے کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔وہ عوام کہ جو آدھا کلو عوام لینے کے لیے پورا ٹھیلا کنگالتی ہے وہ ان جعلی پیروں کے ہاتھوں ذلیل کیوں ہوتی ہے یہ سوچنے سے بالاتر ہے۔افسوس کہ ان جعلی پیروں نے پاکستان میں بھی اپنا یہ دھندہ جاری کیا ہوا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اولیاء کرام کے مزارات اور دربار بھی ان کے اس دھندے کی ذد میں ہیں۔جب عطائی ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے تو ان سرحدوں کے خلاف کیوں نہیں؟؟کیا حکومت بھی عوام کی طرح انہیں اپنا مرشد مان گئی ہے۔کیا وہ بھی ان کے جعلی قصے اور کرامات کا ذکر سن کر ان سے متاثر ہوچکی ہے۔کیا حکومت کی آنکھوں پر بھی ان لوگوں نے پٹی باندھ دی ہے۔تبدیلی نعروں سے نہیں کام سے آئے گی۔عوام کو خود ان درندوں کے خلاف ایکشن لینا ہوگا اور ان کے جعلی آستانوں پر جانے سے رکنا ہوگا۔بے شک یہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔جن کے ہاتھوں ارض پاک کی بیٹیوں کی عزت محفوظ نہ ہو وہ درندے ہوتے ہیں۔عوام ان کو پہچانے اور ان کو اپنی گلی محلے سے نکال باہر پھینکے۔عوام کی آنکھوں پر باندھی گئی پٹی کو عوام نے خود ہی کھولنا ہے۔تبھی حقیقی تبدیلی ممکن ہے۔اگر جعلی پیروں کا اس ملک سے صفایا ہوگا تو تبھی ملک ترقی کرسکے گا۔انہیں کی وجہ سے عوام کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔عطائی ڈاکٹروں کے کلینک سیل کرنے کیساتھ ساتھ ان کے جعلی آستانوں کو بھی سیل کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں ایک کردار عوام نے کرنا ہے۔عوام سے اپیل ہے کہ ان جعلی پیروں کی نشاندہی کرے اور حکومت پاکستان کے شانہ بشانہ ان کے خاتمے کا عزم کرے۔آج میں اس پلیٹ فارم سے عوام سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں ان درندوں کے آستانے بند کراکے جیو تاکہ کل کسی بھائی بیٹے یا باپ کو افسوس نہ کرنا پڑے۔اب بھی وقت ہے اس کو بے نقاب کرنے کا۔حکومت پاکستان کا ساتھ دینے کا۔چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ ان کے جعلی آستانے سیل کرنے کا حکم صادر فرمائیں تاکہ جعلی ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ جعلی پیروں کا بھی صفایا ہوسکے۔
سوچ رہا ہوں انہیں جعلی پیر کیوں یا درندے