زندگی ایک امتحان ہے یا پھر کوئی آزمائش! یہ بات سمجھ سے کوسوں دور ہے اور شاید مجھ جیسی نالائق انسان کو کبھی سمجھ بھی نہ آئے۔ مگر تمام سوچوں پر آج ایک سوچ حاوی رہی کہ کیا واقعی اولاد کا دکھ ماں کے دل میں ایک سوراخ پیدا کر دیتا ہے اور وہ کبھی نہیں بھرتا؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ والدین اور خاص طور پر ماں کا دکھ کیسے بیٹیوں کو دیمک بن کر چاٹ جاتا ہے؟ نہیں نا۔
اکثر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ماں کے مرتے ہی بیٹی کا میکہ ختم ہو جاتا ہے جب کہ ابھی وہ کنواری ہو۔ کیوں ماں کی موت اسے اپنے باپ کے گھر میں ہی لاوارث بنا دیتی ہے؟ کیوں کسی کے ساتھ اس کا کوئی حق دعویٰ نہیں رہتا۔ کیوں اسے اپنے تمام احساسات کو مار کر جینا پڑتا ہے؟
کل شام سکھیاں نال میں کھیڈن گئی تے ٹٹ گیا میریاں ونگاں
ماں ہوندی تے ہور چڑھاندی باپ کولوں کی منگاں
کبھی کبھی میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ ماں کو کیوں تخلیق کیا گیا؟ اگر تخلیق بھی کیا گیا تو مرتی کیوں ہے؟ اگر مرتی ہے تو اس سے پہلے اس کی اولاد کو موت کیوں نہیں آتی؟
کملیاں وانگوں رولا پاوے، دل میرا سنسان نی مائے
اے میرے اللہ پاک آپ کو وہ دن تو یاد ہیں نا جب میں اپنی حساسیت کے باعث کسی کی بات اپنے دماغ میں گھسا کر دھنٹوں تک پریشان رہتی تھی۔ تب میری ماں مجھے سمجھاتی تھی کہ ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؟ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮩﺎ؟ ﮐﺘﻨﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﭘﮩﻨﭽﯽ؟ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﮯ ﻋﺰﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ؟ ﺍﺱ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅ۔ ﯾﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻔﻆ ﺑﻮﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻔﻆ ﺳﮩﻨﮯ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭ ﺳﮑﻮ ﮔﯽ۔
جدوں ماں ٹر جاوے پتہ لگدا زمانے دی اکھ دا اے
اے اللہ! تُو تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے نا۔ پھر اس طنز سےچھلنی دل اور ٹھوکروں سے زخمی روح کو اپنی رحمت میں سمیٹ لے نا۔ تُو تو بہت سخی ہے ۔ بہت رحیم ہے۔ آج سورة مریم کی ایک آیت کا ترجمہ میرے ذہن میں گونج رہا ہے۔ “اور بےشک تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں” ۔ کیا تیری رحمت مجھ گنہگار کو بھی یاد رکھے ہوئے ہے؟ میں نے پڑھا ہے کہ جب تُو موسی علیہ السلام سے کوہ طور پر ملتا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی وفات کے بعد کہا۔ “موسیٰ اب مجھ سے ملنے سنبھل کر آنا۔ تیرے پیچھے تیری سلامتی کی دعائیں کرنے والی مر گئی ہے” ۔ وہ تو تیرا کلیم تھا اور میں گنہگار ہوں۔ کیا میں تیری رحمت کی حقدار ہوں؟
مجھے بچپن سے ہی جانور اور پرندے بہت پسند تھے۔ کبھی کوا بھی بُرا نہیں لگا۔ لیکن گھر میں پالنے کی کبھی خوشی سے اجازت نہیں ملی اور اگر کبھی کوئی جانور یا پرندہ زبردستی لے بھی آئی تو زیادہ دن تک اسے ٹھہرنے نہیں دیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے کیا ہوا کہ گھر کے ساتھ موجود پلاٹ میں ایک بلی نے کچھ بچے جنے۔ وقت کے ساتھ بڑے ہوتے رہے، چلنے پھرنے لگے شرارتیں کرنے لگے۔ کبھی کوئی وہاں سے گزرتا توبھاگ کے دوبارہ انہیں لکڑیوں میں چھپ جاتے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ ایک دن پلاٹ سے عجیب سا شور اٹھا، سن کے ابو اور بھائی لوگ بھاگ کے پلاٹ میں گئے تو دو تین کتے بلی پہ حملہ آور تھے۔ وہ اکیلی ان سے لڑے جا رہی تھی لیکن کتوں کو لکڑیوں کے پاس نہیں جانے دے رہی تھی۔ بھائیوں نے فوراً سے کتوں کو وہاں سے مار کر بھگایا لیکن وہ غراتی بلی ایسی گری کے دوبارہ نہ اٹھی۔ کتوں نے اسے مار دیا تھا۔ لکڑیوں کی طرف نظر کی تو سارے بچے سہمے ہوئے دبکے بیٹھے تھے لیکن صحیح سلامت تھے۔ یہ کیا تھا؟ وہ بلی وہاں سے کیوں نہیں بھاگی؟ وہ اپنا آپ بچا سکتی تھی۔ اسے تو یہ بھی یقین نہیں ہوگا کہ اس کے مر جانے سے اس کے بچے بچیں گے بھی یا یہ کتے ان کو بھی مار دیں گے۔ اس نے اپنی زندگی بے لوث ہو کے ختم کر دی۔ بلی کے یہ بچے وہ پہلے جانور بنے جن کو گھر والوں نے گھر میں بنا ڈرائے پھرنے دیا، کبھی نفرت سے نہ دیکھا اور کبھی کسی وقت کا کھانا اکیلے نہ کھایا۔
میں آج بھی کوئی ماں نام کی نظم یا گیت سنتی ہوں تو مجھے وہ بلی ضرور یاد آتی ہے۔ پتہ نہیں میں نے کیا لکھا؟ کیوں لکھا؟ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ؟ ہو سکتا ہےجسکی ماں نہ ہو شاید وہ سمجھ پائے۔ شاید یہ ان کہے دکھ ہیں جو ماں ہی سمجھ سکتی ہے کیونکہ وہ اولاد کی چال دیکھ کر ہی حالت کا اندازہ کر لیتی ہے
ماواں باج، سہارے اوکھے باپ بنا، کنارے اوکھے