تحریر : انجم صحرائی
قیام پاکستان کے لیہ سے پانی پت جانے والے ڈھینگرا خاندان کے پرام ویر ڈھینگرا بھارت کے انچند ایک لوگوں میں سے ہیں جو بہت سے لیہ والوں کے دوست ہیں۔ ڈھیگرا فیملی کے ان دو ستوں میں لالہ جونی (غلام مصطفے ایڈ وو کیٹ) گگو شاہ، عنایت اللہ ایڈووکیٹ اور عبد الستار علوی ایڈووکیٹ میرے اور پرام ویر کے مشترکہ دوستوں میں سے ہیں۔ گذ شتہ سال لالہ جونی انڈیا گئے تو وہ پانی پت بھی گئے واپسی پر پرام ویر نے ہم سبھوں کے لئے وہاں کی مشہور شال کے تحفے بھیجے۔
اس دو ستی کا سبب یہ ہے کہ قیام پا کستان سے قبل ڈھینگرا فیملی لیہ میں رہا ئش پذ یر تھے اور ڈھینگرا خاندان کے بزر گوں نے پا ر ٹیشن سے قبل لیہ میں نہ صرف بھرا تر ی سکول کے نام سیپہلا تعلیمی ادارہ قا ئم کیا بلکہ لیہ بھرا تری ایجو کیشن کمیٹی کے تحت قا ئم ہو نے والے بھرا تر ی سکول کے لئے بھرا تری ہندو ٹرسٹ کے تحت 4300ایکڑ سے زا ئد ارا ضی وقف کی ۔ یہ بات ہے 1924 سے بھی بر سوں پہلے کی جب ہندو بھراتری ایجو کیشن کے با نی اور پہلے صدر اندر بھان ڈھینگرا جو ایک لا ولد ہندو تھے نے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی ۔ بھرا تری سکول جو آج کل ایم سی ہا ئی سکول کے نام سے معروف ہے کی ابتدا کے لئے ایک اصول وضع کیا گیا کہ جو ہندو لا ولد فوت ہو گا اس کی جا ئیداد بھرا تری ٹرسٹ کو منتقل ہو جا ئے گی اور اس طرح قیام پا کستان کے وقت اس سکول کا منتظم ادارہ وقف کی جا نے والی 4300 ایکڑ کے قریب زر عی اور و شہری جا ئیداد کا ما لک تھا ۔ لیہ شہر کے وسط میں واقع کل کا بھرا تری اور آج کا ایم سی ہا ئی سکول ہا ئی سکول اس لحاط سے بھی منفرد تھا کہ یہ ادارہ قیام پا کستان سے قبل ایک کھلی اور کشادہ عمارت ، ایک مکمل ہو سٹل اور وسیع کھیل کے میدان پر مشتمل تھا یہاں ڈھینگرا خاندان کی ان دو خواتین کو یاد نہ کر نا نا انصا فی ہو گا جنہوں نے اپنے خا وند اندر بھان کی وفات کے بعد اپنے زیور بیچ کر ہو سٹل کی عمارت تعمیر کرا ئی کہتے ہیں کہ اس وقت ہو سٹل کی عمارت پہ 60 ہزار روپے کی خطیر رقم خرچ ہو ئی تھی ۔بھرا تری ہا ئی سکول کے پہلے ہیڈ ما سٹر لا لہ آ سا رام تھے ڈھینگرا خاندان اور لیہ وال کے درمیان اسی تعلیمی درسگاہ کا ر شتہ ہے جو ایک دو سرے کو محبت اور اپنا ئیت میں با ند ھے ہو ئے۔
مقا می ایف ایم کے پروگرام فورم 89 کے گذ شتہ ایک پرو گرام میں ہما رے مہمان ایم پی اے چو ہدری اشفاق تھے شہر کے مسا ئل با رے بات چلی تو میں نے بصد ادب پو چھا کہ جناب پتہ چلا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ہو نے والے اجلاس میں کسی معززز ممبر پنجاب اسمبلی کی طرف سے پیش کی گئی تحریک التوا نمبر 901/2014 میں بھرا تری ٹرسٹ کی ملکیت بارے حکو مت کو توجہ دلا ئی ہے ۔ جواب ملا “مجھے نہیں پتہ “ہم ایم پی اے صاحب کے جواب پہ یقین کرتے ہو ئے آ گے بڑھ گئے وہ اس لئے کہ اگر ایم پی اے صاحب کو پتہ ہو تا تو یقینا پنجاب اسمبلی میں لیہ کے بھرا تری ٹرسٹ بارے ہو نے والا سوال ہمارے ایم پی اے کی طرف سے ہو تا ۔خیر ہم ممنوں ہیں شیخ علا ئو الدین ممبر پنجاب اسمبلی لا ہور کے جنہوں نے اپنی ایک تحریک التوا کے ذریعیھکو مت پنجاب کی تو جہ دلا ئی ۔ اپنی تحریک التوا میں معزز ممبر اسمبلی نے کہا کہ بھرا تری ٹرسٹ کی ملکیت 4300 ایکڑ تھی جو قبضہ گرو پوں نے متروکہ جا ئیداد کلیموں کے عوض ٹرا نسفر کرا لی ہے اور سکول کو صرف 24 کنال زمین دے کر لینڈ ما فیا نے قبضہ کر لیا ہے۔
شیخ علا ئو الدین ایم پی اے لا ہور کی جا نب سے پیش کردہ تھریک التوا کی رو شنی میں وزیر اعلی پنجاب نے کمشنر ڈیرہ غا زیخان اور ڈسٹرکٹ کوار ڈینیشن لیہ سے مفصل رپورٹ طلب کر لی ۔ انہی دنوں ڈی سی او آ فس کی لیٹیگیشن برانچ کے ایک ذ مہ دار نے مجھ سے را بطہ کیا اور اس معا مل پہ میری را ہنما ئی چا ہی کہ جناب 2002 میں پہلے ہی اس کی تفصیلی انکوائری ہو چکی اس زما نے میں مر حوم عزیز احمد خان ڈی سی ہوا کرتے تھے ۔ پر ویز مشرف صاحب نے تا زہ تازہ اقتدار سبھا لا تھا ۔PTV پر احتساب کی روز گھنٹیاں بجا کر تی تھیں جن سے متا ثر ہو کر ہم نے بھی چیف ایگز یکٹو پا کستان کو بھر ا تری ٹرسٹ اور چک 123بی کے بارے در خواستیں اسلام آ باد روانہ کر دیں ۔123بی چک با رے ہما ری رائے تھی کہ یہ چک ایک بو گس اور نو ٹیفا ئیڈ چک ہے اور اس چک کا تا حال کو ئی نو ٹیفکیشن نہ ہوا ہے ۔ ہم نے اپنی در خواست میں یہ بھی تحریر کیا کہ اسی بو گس چک کی آ ڑ میں قبضہ ما فیا نے قیمتی شہری جا ئیداد حتی کہ محکمہ ا وقاف کے زیر انتظام ہندو بھرا تری ٹرسٹ کی اربوں کی شہری جا ئیداد بھی نا جا ئز طور پر کلیمنٹ اور حق واپسی کے نام پر ہتھیا لی ہے ۔ ہم نے اپنی عرضداشت میںیہ بھی نو حہ سنا یا کہ کیسے ہندو ٹرسٹ کے تعلیم دوست ٹرسٹیوں نے جو تعلیمی ادارہ بھرا تری سکول قا ئم کیا تھا آزادی کے بعد ہم نینہ صرف اس کا نام بدل کے اپنے ملک کا نام روشن کیا بلکہ اس ادارے کے زیر استعمال شہری زمین کی حیثیت بھی بدل دی ۔ بلڈ نگ کی وسعت کے لئے مختص رکھے جا نے والی زمین پر محلے بس گئے اور اور با قی محکمہ اوقاف کی ملی بھگت سے فروخت ہو ئی ، کرایہ داروں کے توسط قبضہ ما فیا نے ہتھیا لی اور ناجائز کلیمنٹ اور حق واپسی کے نام بندر بانٹ ہو ئی ۔ہمارا مو قف تھا کہ وقف ارا ضی کی بھی صورت نہ تو کسی کو ایڈ جسٹ ہو سکتی ہے اور نہ ہی الاٹ ہو سکتی ہے ۔ بھر تری ٹرسٹ کی اراضی جو کہ ایک تعلیمی ادارے کے لئے وقف ارا ضی ہے اسے بھی الاٹ اور ایڈ جسٹ نہیں کیا جا سکتا ۔ اور لینڈ ما فیا نے یہ کھیل جملہ ایڈ جسمنٹ ،الا ٹمنٹ اور فرو ختگی کا غذات مال میں بھرا تری وقف کا نام حذف کر کے بحق چک123 بی ٹی ڈے اے ظاہر کر کے کھیلا ہے ۔ بھراتری ٹرسٹ اور چک123 بی ٹی ڈے اے ہم نے یہ در خواستیںاس وقت کے چیئر مین قو می احتساب بیو رو اسلام آ باد کے نام بھی بھجوا ئیں ۔ جن پر مجاز ا تھا رٹیز کے حکم پر تحقیقات کا حکم جا ری ہوا ۔ڈی سی لیہ کی جا نب سے عمر حیات مجسٹریٹ کو تحقیقاتی آ فیسر مقرر کیا جنہوں نے تحقیقات کے بعدبڑی محنت سے الگ الگ انکو ا ئر ی رپورٹس مرتب کیں ۔ ان تحقیقا تی رپو رٹس پر کیا کا روا ئی ہو ئی خبر نہیں ۔مگر مجھے اتنا پتہ ہے کہ ڈی سی آفس کی جا نب سے ا ن تحقیقات کی بنیاد پر حکام بالا کو بھجوائے جا نے والی رپورٹ میں میرے مو قف کی تا ئید کی تا ئید کی گئی تھی ۔ ہو نے والی انکوا ئری میں اسسٹنٹ ایڈ منسٹریٹر اوقاف کی جانب سے بھیجے گئے ایک جوا بی خط No . ETP/LY/MZG / 2000/499 میں تحریر کیا گیا تھا کہ اس وقت سکول کے پا س ایم سی ہا ئی سکول کے پاس 39 k-05 m جگہ مو جود ہے جو اب 2014 میںسمٹ کر 25k – 06 m مر لے رہ گیا ہے ۔ یہ انکشاف شیخ علا ئوالدین ایم پی اے کی جا نب سے پو چھے گئے سوال کے جواب میں ڈی سی او لیہ کی جا نب سے کمشنر ڈی جی خان آفس بھجوائے جانے والے ایک مرا سلہ سے ہوا ۔ مرا سلہ کے ایک پیرا گراف میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ۔۔۔۔۔”یہ امر بھی قا بل ذ کر ہے کہ انتظا میہ کمیٹی ہندو بھرا تری ہا ئی سکول کی ملکیت چک نمبر123-B/TDA میں 89k-08m تھی اس ملکیت میں سے 32k-18m مرلے بذ ر یعہ انتقلات بحق ) ETPB ) منظور ہو چکے ہیں اور بقایا 56k-10m رقبہ اندر اربن ایریا کمر شل اور رہا ئشی یو نٹ میں مو جود ہے لیکن لوگ قا بض ہیں ۔ مرا سلہ میں کہا گیا ہے کہ بوقت تیا ری بندو بست مثل حقیقت چک نمبر 123-B / TDA میں کھا تی نمر 92 نمبر خسرہ 107قا ئم کر کے اس خسرہ کا رقبہ462k-12m درج ریکارڈ کرایا گیا ۔56k-10m رقبہ جو کہ بھرا تری ہا ئی سکول کی ملکیت تھی وہ نمبر خسرہ 107ملکیتی ادارہ تر قیا تی تھل (TDA)میں شا مل کر دی گئی “۔
قو می اور لو کل میڈ یا نے ہمیشہ اس مسئلہ کو اجا گر کر نے میں اپنا مثبت رول کردار ادا کیا ہے ، سال 2002 سے میں اس مو ضوع پر مسلسل لکھ بھی رہا ہوں اور بول بھی رہا ہوں ۔ بھرا تری ٹرسٹ کے حوالے میرا یہ لکھنا اور بو لنا کسی پر احسان نہیں بلکہ یہ قرض ہے اس شہر کا اور اس مادر علمی کا جس سے میں نے بھی علم و دا نا ئی کی رو شنی حا صل کی ہے میرے علا وہ اسلام آ باد میں مقیم لیہ کے صحا فی خضر کلا سرہ نے نو مبر 2012 میںبھرا تری ٹرسٹ لیہ کے بارے ایک مضمون “تعمیر میں انصاف رکھنے کی خواہش ” تحریر کیاجس میں انہوں نے بھراتری ٹرسٹ با رے میری ان کا و شوں کا ذکر کرتے ہو ئے سا بقہ چیف جسٹس آف پا کستان سے سو مو ٹو ایکشن لینے کی اپیل کی ۔ خضرکلا سرہ کایہ مضمون روزنا مہ خبریں کے ا دارتی صفحہ اول پر شا ئع ہوا ۔ یہ تحریر اب بھیhttp://www.topstoryonline.com/khizer-hayat-column-121105 مو جود ہے اور ملاھظہ کیا جا سکتا ہے ۔ گذ شتہ سال لیہ سے شا ئع ہو نے والے نئے ہفت روزہ اخبار عکس تھل کے پہلے شما رے میں لیہ کے سینئر صحا فی فرید اللہ چو ہدری کی ایک فل پیج سٹوری اس مو ضوع پر شا ئع ہو ئی ۔ مقا می ایف ایم ریڈ یو89 سے نشر ہو نے والے ہفتہ وار پروگرام فورم 89 جس کی میز با نی کا اعزاز راقم کو حا صل ہے میں بھی متعدد بار اس مو ضوع کو زیر بحث لا یا جا چکا ہے۔
لیہ میں اپنا بچپن گذارنے اور ایم سی ہا ئی سکول سے میٹرک کر نے والے ڈاکٹر فیا ض بخاری آج کل اٹک میں مقیم ہیں۔ انٹر نیٹ پر بھراتری ہا ئی سکول بارے میری ایک تحریر ان کی نظر سے گذ ری جس کے بعد انہوں نے نا معلوم کیسے میرا مو با ئل نمبر لے کر مجھ سے رابطہ کیا کہنے لگے کہ ہم بھرا تری سکول میں دہم کلاس کے کئی کلاس فیلوز سکول میں ایک کلاس لگانا چا ہتے ہیں ، ہم چا ہتے ہیں کہ ہماری کلاس کے سبھی ہم جماعت اکٹھے ہوں اور اپنے دور کے اساتذہ کو بھی دعوت دیں ۔ سارا دن کی کلاس ہو گی ۔ پیر ئیڈ ہوں گے ۔ اسا تذہ حاضری لگا ئیں گے اور ما نیٹر بھی اپنا کام کرے گا ۔ آپ ہمارے سکول بارے بہت اچھا کام کر رہے ہیں آپ بحیثیت گیسٹ ہماری کلاس میں تشریف لا ئیں اور بھراتری سکول کی تا ریخ اور مقد مہ سے ہمیں آ گاہ کریں ۔ میں نے کہا ٹھیک میں آ ئوں گا ۔ مقررہ دن میں وہاں پہنچا تو زبردست ما حول تھا ۔ تیس سال پہلے کے ا سا تذہ بھی مو جود تھے اور طلباء بھی ۔کئی اسا تذہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے اور کئی طلباء بہت بو ڑھے ۔ مگر کلاس بھی لگی اور حا ضری بھی ہو ئی ۔ اس کلاس کے چند طلبا ء جنہیں میں جا نتا تھا ان میں اٹک سے ڈاکٹر فیاض بخاری ، ملتان سے ایف آئی اے کے غلام نبی خان ،جہلم سے ایس ای کینال زاہد رفیق ، لا ہور سے پلا ننگ اینڈ ڈویژن کے مزمل حسین ، لیہ سے کرنل (ر) مشتاق اعوان ، ڈاکٹر میجر (ر ) امیر محمد سمرا ، ریٹا ئرڈ تحصیلدار عباس خان اور احمد خان بھی مو جود تھے ۔ میں اس انو کھی کلاس میں واحد گیسٹ تھا ۔ جس نے بھراتری ٹرسٹ اور بھراتری سکول کی تاریخ بارے گفتگو کی ۔ میری گفتگو کے بعد شر کا ئے کلاس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنے اس مادر علمی کے ساتھ ہو نے والی ان زیا دتیوں بارے آواز اٹھا ئیں گے یہ وعدہ کتنا ایفاء ہوا معلوم نہیں ۔لیکن بہر حال یہ میرے لئے ایک اعزاز کی بات تھی ۔ اس کلاس کے اسا تذہ میں پی ٹی ما سٹر کرم حسین ، جام کرم الہی بھی تھے اور شیخ محبوب الہی بھی شا مل تھے۔ ایم سی ہا ئی سکول کے سینئر سٹوڈنٹ کی اس انو کھی کلاس کو پرنٹ میڈ یا اور الیکٹرانک میڈ یا نے بھر پور کوریج دی ۔دنیا ٹی وی کا پروگرام حسب حال میں بھی عزیزی نے اس ایونٹ پر اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کیا ۔لیہ سے ہجرت کر کے پا نی پت انڈ یا میں جا بسنے والے ڈحینگرا خاندان نے وہاں بھی لیہ بھراتری ایجو کیشنل سو سا ئٹی کے تحت علم کی شمعیں روشن کرنے کا عظیم کام جا ری رکھا ۔ انہوں نے اس سو سا ئٹی کے تحت کئی علمی درسگا ہیں قا ئم کیں مگر افسوس ہم ان کے قا ئم کئے علمی ورثے کی اس طرح حفاظت نہ کر سکے جیسا حق تھا۔
تو جناب یہ ہے 123-B/TDA کا کھوہ کھا تہ اگر واقعی کو ئی منصف چا ہتا ہے کہ قیام پا کستان سے نصف صدی قبل بھرا تری ٹرسٹ کی طرف سے قا ئم کیا جا نے والا یہ تعلیمی ادارہ بھرا تری ہندو ٹرسٹ کی اس وقف ارا ضی سے مستفیذ ہو تو اسے چک 123/B ٹی ڈی اے کا یہ کھو ہ کھا تہ کھو لنا پڑے گا۔
تحریر : انجم صحرائی