سعادت منٹو صاحب نے لکھا تھا کہ گانے والے اپنی آواز کی بہت دیکھ بھال کرتے ہیں۔ کھٹی اشیا اور برف کی طرح ٹھنڈا پانی پینے سے احتراز کرتے ہیں۔ ان کے سونے اور جاگنے کے اوقات مقرر ہیں مگر نور جہاں کا یہ عالم تھا کہ خوب چٹ پٹی مسالے دار چیزیں مزے لے لے کر کھاتیں۔ اچار اور کھٹی چٹنی کافروانی سے استعمال کرتیں اس پر برف کی طرح یخ پانی پی کر گانا ریکارڈ کرانے چلی جاتی تھیں۔ منٹو صاحب نے یہ بمبئی کے دنوں کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس کے بعدپچاس سال سے بھی زائد عرصے تک وہ اسی معمول پر عمل کرتی رہیں۔ اسے بھی خدا کی دین ہی کہنا چاہیے۔ البتہ ایک بات و ثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر نور جہاں بمبئی سے نہ آتیں وتو لتا منگیشکر کو ایسا عروج نہ ملتا۔
میڈم نور جہاں کو ہم نے پہلی بار ان کی شاہ نور اسٹوڈیو والی کوٹھی میں دیکھا تھا۔ یہ انٹرویو کافی دیر تک جاری رہا ۔ اس کے بعد جب ہم فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے تو اکثر کہیں نہ کہیں آمنا سامنا ہوجاتا تھا پھر وہ اعجاز درانی کی بیگم تھیں تو ملاقات ہوگئی ۔ انہوں نے اداکاری چھوڑ دی تھی ۔ صبح شوہر کو گھر گر ہستن بیوی کی طرح رخصت کرتی تھیں۔ سارے دن گھر بیٹھ کر واپسی کا انتظار کرتی تھیں اوران کے بغیر رات کا کھانا نہیں کھاتی تھیں چاہے رات کے بارہ ہی کیوں نہ بج جائیں۔ اعجاز کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانے پکاتی تھیں۔
اس سے پہلے ہم ان کی اداکاری کا دور بھی دیکھ چکے تھے۔ کہاں وہ گلیمر کی زندگی اور کہا یہ گھریلو نیک پروین جیسا کردار ۔ نورجہاں نے حتی الامکان اس کردار کو نبھانے کی کوشش کی لیکن بالآخر علیٰحدگی ہوگئی ۔ اس کے اسباب بہت سے ہیں جن کی تفصیل پہلے بھی ہم بیان کر چکے ہیں۔
جب انہوں نے باقاعدہ گلوکاری کا آغاز کیا تو یہ ان کی نئی زندگی کا آغاز تھا۔ ہم نے گلوکاری کی حیثیت سے بھی ان کو دیکھا فلمی صنعت پر وہ ایک زمانے میں واقعی حکمرانی کرتی تھیں۔ ان کی آواز کے بغیر کوئی فلم مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ بطور گلوکارہ ان کے بہت اچھے موڈ بھی ہم نے دیکھے اور ربرہمی کا تماشا بھی دیکھا۔ ایک باروہ ہم سے بھی بہت ناراض ہوگئی تھیں مگر یہ ناراضگی عارضی رہی۔
شوکت حسین رضوی سے ان کی صلح ہوئی تو سب سے زیادہ خوش ہونے والوں میں ہم بھی شامل تھے ۔ شاہ نور اسٹوڈیو میں شوکت صاحب کے گھر آمدورفت کا سلسلہ شروع ہوگیا جہاں میڈم یاسمین انتہائی محبت اور احترام سے ان کا خیر مقدم کرتی تھیں۔ ان ملاقاتوں سے ہمیں پرانے مناظر اور واقعات فلیش بیک میں چلتے ہوئے نظر آتے تھے ۔
وہ علاج کے لیے امریکا گئیں تو سبھی ان کے لیے دعا گو تھے ۔ دل کا آپریشن کراکے واپس آئیں تو شوکت صاحب اور میڈم یاسمین بذات خود ائر پورٹ پر ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
انہوں نے کچھ دن آرام کیا پھر چندگانے بھی ریکارڈ کرائے مگر ایک بار پھر بیماری نے انہیں گھیر لیا۔ کراچی اور پھر وہاں سے امریکا گئیں۔ ان کی صحت یابی اور صحت کی خرابی کی خبریں باقاعدگی سے موصول ہوتی رہتی تھیں۔کئی بار ان کے انتقال کی افواہیں بھی پھیل گئی ۔
میڈم اس پر بہت ناراض تھیں ۔ وہ شکایت کرتی تھیں ’’یہ کیسے لوگ ہیں ۔ مجھے جیتے جی مار دیا؟‘‘
امریکا سے علاج کرانے کے بعد وہ پاکستان واپس آئیں مگر کراچی ہی میں مقیم رہیں۔ لاہور اور لاہور والے ان کے منتظر ہی رہے۔ وہ خود بھی لاہور آنے کے لیے بے چین تھیں مگر صحت کی خرابی کے باعث یہ ملتوی ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک دن کا فرشتہ آیا اور انہیں اپنے ساتھ لے گیا اس کے بعد ان کی مغفرت کی دعا ہی کی جا سکتی ہے جو ہم باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ کچھ عرصے قبل کراچی گئے تو پرویز ملک صاحب نے ملنے ان کے گھر گئے ان کے گھر کا پتا یہ بتایا گیا تھا کہ قبرستان کے پاس ہے ہم راستہ بھول کر آس پاس گھومتے رہے ۔ کئی بار قبرستان کے سامنے سے گزرے۔ بالآخر پرویز ملک صاحب کا گھر مل گیا۔
باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ میڈم نورجہاں سامنے والے قبرستان مین دفن ہیں۔ ہم فاتحہ پڑھنے گئے تو قبرستان کے اندر جانے کی ہمت نہ پڑی ۔ باہر ہی سے فاتحہ پڑھی ۔ میڈم کے لیے بھی اور اس قبرستان کے دوسرے مکینوں کے لیے بھی۔ خیال آیا کہ دیکھیے انسان بھی ایک مشت خا ک ہی توہے۔ مٹی سے بنا ہے اور مٹی میں ہی مل جاتاہے۔ اس کے لیے بھی قدرت نے وقت اور مقام مقرر کر دیا ہے۔ یہ قضا و قدر ہی سمجھئے کہ قصور کی مٹی سے جنم لینے والی نور جہاں نے ساری دنیا کی خاک چھان ماری۔ نگر نگر گھومتی پھرتی رہیں ۔ کیا کیا نہ دیکھا اور کس جگہ نہیں گئیں۔ اس سیرو سیاحت کا خاتمہ کراچی کے اس قبرستان پر ہوتا تھا جہاں ان کا کوئی عزیز ہے نہ پرانے رفیق ۔ اجنبی جگہ اور اجنبی لوگوں کے درمیان خدا جانے وہ کیا محسوس کرتی ہوں گی!
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے ۔