تحریر : ایم سرور صدیقی
کوئی مانے، نہ مانے، بہانے تلاش کرے، لاکھ عذر تراشے، الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھا کر رکھ دے یا جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے کا ہنر جانتا ہو یا پھر واقعات کے سیاق و سباق بدلنے پر قادر ہو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ سچ ایک بہت بڑی قوت ہے سچائی کو وقتی طورپر دبایا جا سکتاہے لیکن دوام اسی کو حاصل ہے یہ الگ بات کہ دنیا دار کاغذ کے پھولوں سے خوشبو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
سقراط نے اپنے ہاتھوں زہرکا پیالہ پی لیا، عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا نبی ٔ اکرم ۖکے دندان مبارک شہید کردئیے گئے،کہتے ہیں سرمدنے اپنا پوش اتاردیا تھا،منصور بھی معتوب ٹھہرا درحقیقت دنیا میں ہمیشہ سچ کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا ہے ۔لوگ سنتے، سمجھتے اور دیکھتے ہیں اس کے باوجود بیشتر سچائی کا ساتھ دینا پسندنہیں کرتے امام حسین کوخود لوگوںنے مکتوب بھیجے،ساتھ دینے کاعہدکیا لیکن عملاًبے وفائی کے مرتکب ہوئے اورآج بھی کوفیوں کے اس کردارکو پسندنہیں کیا جاتا جبکہ نیزے پر قرآن کی تلاوت کرنے والا سربلندہے درحقیقت وقت کے ساتھ ساتھ سچ کی عظمت میں اضافہ ہوتاچلا جارہاہے لیکن سامنے کی بات اکثر لوگوںکی سمجھ میں نہیں آتی کہ آج دنیاکا ماحول ہی ایساہوگیاہے سچ پر جھوٹ اس قدر غالب ہے کہ حقائق مسخ ہوتے چلے جارہے ہیں ہم دنیا داروںمیں سچ سننے،بولنے اوربرداشت کرنے کا حوصلہ نہیں سچی بات تو یہ ہے کہ ہم سب سچ سے خوفزدہ ہیں،ہمیں ڈر لگتاہے سچ بولاتو نہ جانے کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی ۔۔۔آج دنیاپر جھوٹ کی حکمرانی ہے، جھوٹ کا کاروبار عروج پرہے،جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ اچھا لگتاہے سچ بیشترکو پسندہی نہیں۔
ازل سے جھوٹ۔۔ سچ کے خلاف برسرِ پیکارہے۔۔خیراور شرکی جنگ جاری ہے حالات جیسے بھی ہوں، نتیجہ جو بھی نکلے تاریخ کے صفحات اٹھاکر دیکھ لیجئے فتح ہمیشہ سچ کی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ کا توحکم ہے کہ سچ کو جھوٹ کے پردے میں مت چھپائو ۔۔۔لیکن ہر جگہ جھوٹ کی حکمرانی ہے عدالتوںمیں جھوٹے گواہ اورجھوٹے مقدمے افراط میں ہیں حکمران، جج، وکیل ،سائل،مدعی سب کچھ جانتے ہوئے بھی بے بس ہیں اس استحصالی نظام نے اس اندازسے سسٹم کوجکڑرکھاہے کہ کوئی پرنہیں مار سکتاپس جھوٹا سچا اور سچا جھوٹا بن گیاہے اور اس پر اترانا فیشن بن گیا یہ سب کچھ اللہ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔پاکستانی معاشرے میں تو جو جتنا جھوٹ بولے اتنا کامیاب سمجھا جاتاہے چندماہ قبل ایک سیاستدان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میں سچ بولوںگا حالانکہ اس کیلئے الفاظ کی تکرارکی ضرورت نہیں قومی رہنمائوںکو ہر حال میں سچ بولنا اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ سیاستدان رات دن جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور انہیں اس میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی اورسیاسی کارکن ہیں کہ وہ اپنے لیڈرکی ہر سچی جھوٹی بات کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ انہیں سچ بولنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی سناہے جب انسان مسلسل جھوٹ بولنا اپنا شعار بنا لیتاہے تو پھراس کے دل و دماغ پر مہر لگادی جاتی ہے۔۔ جبکہ سفیدجھوٹ بولنا پاکستانی حکمرانوںکا وطیرہ بن چکاہے جھوٹے وعدے،بلند و بانگ دعوے اور سبزباغ دکھانا ان کی گھٹی میں پڑاہواہے ان کے اس طرز ِ عمل نے کرپشن کو بے انتہافروغ دیاہے بیوروکریسی،فوجی ڈکٹیٹروں، افسرشاہی ، بیشتراپوزیشن رہنمائوں، اکثر مذہبی سیاستدانوں، کئی سرمایہ داروں اور روایتی جاگیرداروں پر مشتمل اشرافیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ان تمام کے تمام نے اس ملک کو جی بھرکر دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اربوں کھربوں بیرون ممالک منتقل کردئیے اور ستم بالائے ستم کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔۔ ہر وقت جمہوریت،پاکستان اورمذہب اور اخلاق کا راگ الاپنے والوں نے اس قوم کو اتنے دھوکے دئیے ہیں جس کی نظیر دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی ہوگی یہ لوگ اتنے جھوٹے ہیں کہ جھوٹ بھی ان کو دیکھ کر منہ چھپا لیتاہ ے جھوٹ پر جھوٹ بولنے والوںکو شیطان کا پیروکارکہا جاتاہے کمال ہے یہ لوگ پھر معزز اور ہمارے آئیڈیل ہیں ان کے حق میں دلیلیں دیتے ہیں۔۔
بحث و مباحثہ کرتے ہیں ، لانگ مارچ کی رونق دکھائی دیتے ہیں،کبھی ریلیاں نکالتے ہیں، جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں زندہ باد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے لیکن یہ غور نہیں کرتے کہ ان کی ”حیرت انگیز ترقی” کے پیچھے کون سا راز پوشیدہ ہے؟ ۔۔۔یا ان کے پاس کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ ان کی دولت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے جبکہ عام آدمی کی حالت کیسی ہے ؟ حالات دن بہ دن کیوں بگڑتے چلے جاتے ہیں؟ جھوٹ کا کاروبارکرنے والوںکے بچے بھی منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں ان کو غریبوںسے کیا سروکار؟۔۔ان کے حالات سے کیا غرض؟۔۔۔ٹٹول کر دیکھیں،سوچ سمجھ کر جواب دیں کاغذ پرنہ لکھیں چلو انگلیوںپرہی شمار کرلیں وطن ِ عزیز میں ایک ایم پی اے،ایم این اے سے لے کر صدر ،وزیر ِ اعظم تک کسی ایک کا لائف سٹائل عام آدمی جیساہے۔۔۔ یقینا ایک بھی نہیں ۔۔پھر ان کا عوام سے محبت کا دعویٰ سراسر جھوٹا، من گھرٹ اور حقائق کے منافی ۔۔یہ پرلے درجے کے جھوٹے پھر ہمارے لیڈر۔۔ لوگوں کو ان کی حقیقت معلوم ہو جائے تو ان کو سنگسارکرنے سے بھی دریغ نہ کریں جھوٹ ایک بری عادت ہے اشرافیہ اسے ترک کرنے کوتیار نہیں حالانکہ اللہ رب العزت نے جھوٹوںپر لعنت بھیجی ہے لیکن ہم مسلمانوںکو تو غوروفکرسے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ہم سب کو سوچنا چاہیے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ قول و فعل کا تضادبھی جھوٹ کی علامت ہے اسی لئے ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے 100جھوٹ بولناپڑتے ہیں پھر بھی بات نہیں بنتی دراصل جھوٹ ہمارے معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکاہے کہ کوئی سچی بات کرے لوگ یقین ہی نہیں کرتے۔انتخابات کے نتائج میں بھی جھوٹ کا سہارالیا جاتاہے ووٹ کسی کوپڑتے ہیں اور جیت کوئی اور جاتاہے اور ایسے شخص کو کیا کہیے مبارک بادیں وصول کرتے ہوئے بھی اس کا ضمیر نہیں جاگتا اب تلک پاکستان میں ہونے والے تمام بلدیاتی و عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہارنے والوں نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔۔
درحقیقت دھاندلی ۔کو۔۔جھوٹ کی منظم کوشش کہا جا سکتاہے ایوب خان کے مقابلہ میں محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ذوالفقارعلی بھٹو نے عام انتخابات کروائے تو 9جماعتوںکے اتحادنے احتجاجی تحریک چلاکر ان کے اقتدارکا خاتمہ کردیا۔میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو اور بے نظیر بھٹونے ایک دوسرے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی الغرض کہ ہر حکومت پر اپوزیشن نے دھاندلی کاالزام لگایا او ر یہ سلسلہ اب تک درازہے اس قوم سے جمہوریت، مذہب، سیاست اور اصلاحات کے نام پر دھوکہ کیا گیا عوام کو بے وقوف بنانا معمول بن گیا جھوٹ کی سیاست نے ملک کو اتنے مسائل سے دوچارکررکھاہیکہ اس کی تلافی ناممکن ہے یہ جھوٹ کی سیاست کاہی کیا دھرا ہے کہ حکمرانوںکی تجوریاں بھرتی جارہی ہیں اور عام آدمی دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہے اشرافیہ وسائل پر قابض ہے اس کا سارے سسٹم کی بنیادہی جھوٹ پر کھڑی کی گئی ہے اس معاشرے میں سچ کو ثابت کرنا پڑتاہے اسی بات کے باعث ثابت قدمی پر قائم رہنا مشکل ہے سچ کا ساتھ دینے والوں کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے یہی افراد انسانیت کے ماتھے کا جھومرہیں ہرشخص سچ سے خوف زدہ ہے جو زبان سے اقرار نہیں کرتا اس کا دل ضرور گواہی دیتا ہے سچ ایک بہت بڑی قوت ہے سچائی کو وقتی طورپر دبایا جا سکتاہے جھوٹ نے آخرکار فناہوناہے آپ بھی مان لیں آخری فتح سچ کی ہونی یقینی ہے یہ الگ بات کہ دنیا دار کاغذکے پھولوں سے خوشبو تلاش کرتے پھرتے ہیں آپ کا کیا خیال ہے؟
تحریر : ایم سرور صدیقی