تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
ہم جس پہ مر رہے ہیں، وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، مگر تو کہاں
اُردو کی جنم کہانی خاصی دلچسپ، پیچیدہ اور مبہم ہے۔ بعض کے نزدیک اُردو لشکری زبان ہے اور کسی لشکر کے اندر پیدا ہوئی۔ بعض دہلی کی پیداوار یا اس کے ارد گرد کی کھڑی بولی،شورسینی پراکرت، اپ بھرنش، پنجابی، لاہوری، ملتانی، سندھی، دکنی یا ہندکو کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت اُردو زبان میں یونانی، پرتگالی، ہسپانوی، ولندیزی، فرانسیسی اور انگریزی سے لے کر عربی، ترکی، سنسکرت، پالی، دراوڑی، سب زبانوں اور بولیوں کی آمیزش ہے۔ اُردو باقاعدہ زبان کے طور پر شاہ جہاں کے زمانے میں اس وقت وجود میں آئی تھی جب شاہ جہاں نے آگرہ سے دارالحکومت دہلی منتقل کیا تھا۔ اُردو کو ابتداء ہی میں مومن، ابراہیم، ذوق اور غالب جیسے شعراء ملے۔ پھر غالب کے شاگرد حالی ملے۔الطاف حسین حالی سے پہلے اُردو ،شعری ادب میں غزل کی بنیاد پر اپنی اہمیت کا اعتراف کروا چکی تھی لیکن نظم اور فکری شاعری میں معیار زیادہ بلند نہیں تھا جبکہ تحقیق و تنقید اور نثری ادب کے اعتبار سے اُردو کا دامن ابھی خالی تھا۔ الطاف حسین حالی ادب میں تنقید کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ انہوں نے یادگار غالب، مقدمہ شعرو شاعری اور یادگارِ سعدی جیسی کتابیں لکھیں تو نہ صرف اُردو ادب کے بانی کہلائے بلکہ خود کو سب سے اچھا تنقید نگاراور محقق ثابت کروا کے اُردو کا خالی دامن بھی بھر دیا۔
مولانا الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق انصاریوں کے ایک معزز خاندان سے تھا۔ ننھیال سادات کے ایک معزز گھرانے میں تھی۔ باپ کی طرف سے ان کا سلسلہ نسب ایک بزرگ خواجہ ملک علی سے جا ملتا ہے جو اپنے وقت کے مشہور و معروف عالم تھے۔ وہ غیاث الدین بلبن کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے تھے اور بادشاہ نے ان کے لیے کچھ گائوں پانی پت کے قریب وقف کر دئیے تھے۔ آپ کے والد خواجہ ایزو بخش نے غربت کی زندگی بسر کی۔ جب وہ فوت ہوئے تو آپ کی عمر نو برس تھی۔ اس کے بعد آپ کی کفالت آپ کے بڑے بھائی اور بہن نے کی۔ دستور زمانہ کے مطابق قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ ابھی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے تھے اور سترہ برس کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے کہ آپ کی شادی آپ کی مرضی کے خلاف کر دی گئی۔آپ کے دل میں حصول علم کا شوق موجزن تھا چنانچہ 1854ء میں اپنے اعزا کے اصرار پر گھر چھوڑ کر پانی پت آگئے اور اپنے طور پر کتب بینی کا شغل جاری رکھا۔ اسی دوران حصار میںکچھ عرصہ ملازمت بھی کی۔ لیکن 1857ء کی جنگِ آزادی کے ہنگامہ کی وجہ سے پھر اپنے گھر واپس جانا پڑا۔آپ نے مطالعہ اور تحقیق سے اپنے علم میں اضافہ کیا۔ آپ کی مرزاغالب سے ملاقات ہوئی اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ آپ مرزا غالب سے اصلاح لیتے تھے اور انہیں کا رنگ ان پر غالب تھا۔ قیام دہلی کے دوران آپ مرزا غالب سے بہت کچھ استفادہ کیا۔ مرزا غالب بھی آپ کی طباعی اور مستعدی کے قدردان تھے۔ آپ کو مصطفی خان شیفتہ جیسے فاضل اور مشہور شاعر سے استفادہ کرنے کا موقع بھی ملا۔ جس کا ذکر انہوں نے خود اپنی شاعری میں بھی کیا۔
حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہوں
شاگرد میرزا کا مقلد ہوں میر کا
آپ ملازمت کے سلسلہ میں لاہور بھی آئے اور یہاں گورنمنٹ بک ڈپو میں انگریزی سے اُردو ترجمہ کی ہوئی کتب کی اصلاح پر مقرر ہوئے اور آپ کی تخواہ 15 روپے ماہانہ مقرر کی گئی۔ آپ کو بالواسطہ انگریزی ادب سے واقفیت حاصل ہوئی اور اپنی زبان اور شاعری میں بھی اسی طرز کی اصلاح کا خیال پیدا ہوا۔ اس زمانے میں مولانا محمد حسین آزاد نے یہاں ایک نئی طرز کا مشاعرہ شروع کیا۔ جس میں ”طرح مصرع” پر غزل کہنے کی بجائے کسی موضوع پر طبع آزمائی کرنے کی دعوت دی جاتی تھی۔ نیچرل یعنی فطری شاعری کی ابتداء یہیں سے ہوئی۔ آپ اس مشاعرے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ آپ دوبارہ دہلی چلے گئے تو آپ کی ملاقات سر سید احمد خان سے ہوئی۔ آپ سرسید احمد خان کی اصلاح تحریک میں شریک ہوئے اور یوں دو دردمند دل یکجا ہو کر قوم کی اصلاح پر کمر بستہ ہو گئے۔ سر سید کی فرمائش پر آپ نے ”مسدس حالی” لکھی۔ اس نظم میں آپ نے نہایت پر درد اور موثر انداز میں اسلام کے عروج و زوال کی داستان پیش کی ہے اور مسلمانوں کو اپنی غفلت رفتہ کے حصول کا احساس دلایا ہے۔ بلاشبہ ”مسدس حالی ”نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ زمانہ حال کی کوئی اُردو کی کتاب اس کی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پوری نظم میں روانی، سادگی، درد اور اثرآفرینی پائی جاتی ہے۔ اس کا موضوع وہی ہے جو اقبال کی شہرہ آفاق نظم ”شکوہ و جوابِ شکوہ ” کا ہے ۔سر سید کا مسدس حالی کے بارے میں قول ہے۔ قیامت کے روز جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ دنیا سے ہمارے لیے کیا لائے، تو کہہ دوں گاکہ حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں۔”
مولانا حالی ”مسدس” کے آغاز میں لکھتے ہیں
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے!
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
1887ء میں جب مولانا حالی کالج میں معلم تھے۔ سر آسمان جاہ علی گڑھ آئے ہوئے تھے، جن سے سرسید نے ان کا تعارف کروایا اور انہوں نے ازراہ عنایت و قدردانی پچھتر روپے ماہوار نظام گورنمنٹ سے ادبی خدمات سرانجام دینے کی خاطر ان کا وظیفہ مقرر کروا دیا۔ بعد میں جب مولانا حالی علی گڑھ کالج سے حیدر آباد چلے گئے تو تنخواہ سو روپے ماہوار کر دی گئی۔ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ نے پانی پت میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور تصنیف و تالیف کے کام میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ 1904ء میں آپ کو انگریزی سرکار سے شمس العلماء کا خطاب عطا ہوا۔ آخر 31دسمبر 1914ء کو اپنی جان ،جان آفرین کے سپرد کر دی اور آج اس عظیم تنقید نگار اور پاکستان کے پہلے قومی شاعر کو ہم سے بچھڑے ہوئے سو سال گزر چکے ہیں۔ آج ان کی صد سالہ برسی ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی نہایت خوش اخلاق، ملنسار، حلیم الطبع، سادہ و قناعت پسند اور سچے فدائی قوم تھے۔ دنیوی چاہ و ثروت کا خیال آپ کے دل میں مطلق نہ تھا۔ آپ کی زندگی، ایک سچے انشاء پرداز کی زندگی تھی جس نے اپنے تعلیمی و تصنیفی مشاغل کے آگے دنیوی مرتبہ و عزت کو ہمیشہ ہیچ سمجھا۔قومی ہمدردی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ آپ نے نثر کے میدان میں بے بہا خدمات سر انجام دیں۔ آپ نے شیخ سعدی ، سر سید احمد خان اور مرزا غالب کے حالات زندگی اور علمی کارنامے لکھے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنے دیوان کا دیباچہ لکھا ہے، جو اس قدر مشہور ہوا کہ بعد میں علیحدہ کتابی صورت میں بار بار شائع ہوا اور مقدمہ ”شعرو شاعری” نام پایا۔ اس میں آپ نے شعرو شاعری پر تنقید کر کے اس کے پرکھنے کے اصول بتائے ہیں۔ یہ آپ کا ایک کارنامہ ہے جس نے شاعری کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ گویا مولانا حالی نے قومی شاعری کی بنیاد رکھی، جس پر آگے چل کر علامہ اقبال نے ایک سربفلک عمارت قائم کر دی۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے ملک و ملت کی اصلاح وترقی کے لیے بہترین کام کیااور اپنی نثر کے ذریعے بھی قوم کی بہترین خدمت سرانجام دی۔ اس لحاظ سے ہماری قومی، علمی اور ادبی دنیا میں انہیں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ شعرو ادب کی دنیا میں آپ کے پیدا کردہ عظیم انقلاب نے گہرے اور دورس اثرات چھوڑے۔ آپ نے مضامین اور خطوط بھی لکھے جو کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کے خطوط میں بھی نجی باتیں کم اور قوم کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ الغرض مولانا حالی مسلمان قوم کے ایک عظیم مصلح اور محسن تھے۔ آپ کی ملی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ کا پر درد پر خلوص پیغام قوم کے لیے خضر راہ ہے۔ آپ کا ایک شعر ہے۔
سلف کی دیکھ رکھو راستی اور راست اخلاقی
کہ ان کے دیکھنے والے ابھی کچھ لوگ ہیں باقی
تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر