تحریر : محمد آصف اقبال
یہ حقیقت ہے کہ اللہ جس سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اْسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ جن لوگوں پر دنیا میں ہی اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ دین کا علم عطا عطا کرتا ہے۔
ان میں سب سے اول انبیا و رسل ہیں اوراس کے بعددین کاحقیقی علم حاصل کرنے والے دیگر افراد ۔چونکہ علماء دین کا حقیقی علم حاصل کرتے ہیں اور ایک بڑی ذمہ داری پر فائض ہوتے ہیں شاید اسی لیے علماء کو انبیا کا وارث بھی کہا گیا ہے۔پھر اسی علم پر مبنی اہم ترین ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں بلندی ،کامیابی اور سرخ روئی بھی عطا کرے گا۔وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اعمال صالحہ و حسنہ کی ادائیگی پہ خوشخبری دیتے ہیں اور برے اعمال کے نتائج سے ڈراتے ہیں۔چونکہ علماء کی حیثیت جہلا کے مقابلہ زیادہ ہے،اسی لیے انہیں معاشرہ میں وہ عزت و مقام بھی حاصل ہے جو دیگر افراد کو نہیں ہے۔برخلاف اس کہ جب اہل علم اپنے مقام ، رتبہ اور حیثیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں نیزاپنی ذمہ داریاں انجام نہیں دیتے، تب وہی خداگرفت بھی کرتا ہے،جس نے عزت وقار عطا کیا ہے۔اہل کتاب کے علماء کی مثال دیتے ہوئے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:”اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں”(التوبہ :٣٤)۔ یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، نذرانے لوٹتے ہیں ، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات اِن سے خریدیں اور اْن کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی اِن کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار اِن کو سمجھ لیں۔
بلکہ مزید براں اپنی اِنہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلقِ خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسا ئے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوتِ حق اصلا ح کے لیے اْٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا ہے۔ اس ایک آیت سے یہ بات باخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اہل ایمان علماء کو اپنی حیثیت کے پیش نظر کس قدر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ جس خدا نے انہیں دنیا میں صرف علم دین کی بنا پر عزت و سربلندی عطا کی ہے ،اگر وہ اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام نہیں دیں گے تو وہ خدا گرفت کرنے سے بھی نہیں چوکے گا۔
ابتدائی گفتگو کے پس منظر میں یہ بات کافی ہے کہ عالم دین اسے کہا جائے گا جو دین کا حقیقی علم رکھتا ہو۔اوریہاں دین سے مراد قرآن وحدیث کا علم ہے۔لہذا ایک سچا اور مخلص عالم وہی کہلائے گا جو دین کا علم بھی رکھتا ہو اورساتھ ہی محمد رسول اللہ ۖکے مشن کو انجام دینے کے لیے سرگر م بھی ہو۔ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے تقاضہ وقت ہے کہ علماء کرام ایک طرف دین کا مکمل علم حاصل کریں وہیںدیگر باطل عقیدہ ہائے علم سے بھی با خوبی واقف ہوں۔ناواقفیت کے نتیجہ میں باطل حق اور حق باطل بن جاتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ دین میں ایک جانب تقفہہ پیدا کیا جائے وہیں دور جدید کی صورتحال سے با خوبی واقفیت حاصل کی جائے۔تفقہہ فی الدین کا معاملہ کسی طرزِ فکر، نقطہ نظر اور مسلک کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ یہ دین کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ تفقہہ چند کلامی ،فقہی مسائل اور تفسیری موشگافیوں سے بھی متعلق نہیں ہے۔ اس سے مراد دین کی وہ گہرائی ہے جو ایک عالم کو عصرِ حاضر کے چیلنجز کے لیے تیار کرتی ہے۔ یونانی فلسفہ کا دور ہو یا مغربی سائنس کا زمانہ، نوآبادیاتی نظام کا وقت ہو یا مابعد نوآبادیاتی نظام، سرمایہ دارانہ نظام ہو یا جاگیردارانہ نظام، سوشلزم ہو یا کمیونزم، مغربی فلسفہ الہادہو یا لادینیت، جدیدیت ہو یا مابعد جدیدیت الغرض کوئی گمراہی و ضلالت کی شکل ہو وہ اپنے زمانے کے چیلنجز کا شعور بھی رکھتا ہے اور تفقہہ فی الدین کی قوت سے ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ سورة النحل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دعوت کے تین اصول بیان کیے ہیں:١۔ حکمت٢۔ موعظت حسنہ ٣۔ مجادلہ حسنہ ۔حکمت کے بے شمار معنی مراد لیے جا سکتے ہیں لیکن دعوت دین کے معاملے میں حکمت سے مراد دلیل و برھان ہے جو عقل و فطرت کے تقاضے کے مطابق ہو جسے سمجھنے میں عقل و فطرت کو اجنبیت نہ ہو۔لہذا ضروری ہے کہ جب علمائے کرام عوام الناس کو دین کی طرف بلائیں تو حکمت کے تمام پہلوئوں کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ پھر یہ کام جو دین کی بقا،قیام اور استحکام کے لیے انجام دیا جارہا ہو۔
اس کے لیے پہلی اور لازمی شرط ہے کہ کوششیں منظم و منصوبہ بند انجام دی جائیں۔بکھری ہوئی کوششیں کسی بھی سطح پر رنگ نہیں لاتیں تو علماء کرام کی جانب سے غیر منظم کوششیں کس طرح رنگ لائیں گی۔ جبکہ وہ نہ صرف بے شمار دائروں میں انجام دی جا رہی ہوں بلکہ ان کے درمیاں اختلافات بھی موجود ہوں۔مقاصد کے حصول کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم موجود ہو یا تیار کیا جائے جہاں علماء کرام کو اپنے تمام اختلافات سے اوپر اٹھ کر ذمہ داریاں ادا کرنے کا موقع میسر ہو۔جہاں مسالک و مدارس کی بنیاد پر شناخت نہ قائم کی جائے بلکہ صرف اور صرف ایک اللہ، ایک رسول اور ایک دین کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر مل بیٹھنے اور ذمہ داریاں انجام دینے کا موقع حاصل ہو۔اور یہی بات ہمیں اسلامی احکامت کی روشنی میں بھی ملتی ہے۔کہا کہ دین اسلام ہمیشہ جماعت کی طرف پکارتا ہے، بکھرنے سے نفرت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے، جو دائرہ جماعت سے نکلا وہ آگ میں جا کودا، بھیڑیا بھی ریوڑ سے الگ رہنے والی بھیڑ ہی کو کھاتا ہے۔جماعت میں صف سے نکل کر پیچھے اکیلے جا کھڑے ہونے سے نماز نہیں ہوتی اور نہ صفوں کو چیر کر جماعت سے آگے جا نے سے ہی نماز ہوتی ہے۔مومن تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنتا ہے، نیکی اور تقوے کے کاموں میں باہمی تعاون کا فریضہ ادا کرتا ہے۔واضح تعلیمات کی روشنی میں نہ عام مسلمانوں سے جو ذرا سا بھی دینی شعور رکھتے ہوں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بکھری ہوئی سعی و جہد کریں گے اور نہ ہی دین کا پختہ علم رکھنے علما ء کرام سے یہ امید کی جانی چاہیے کہ وہ الگ الگ اور منتشر ہوکر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔
اس پوری گفتگو کے پس منظر میں خوشی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں دہلی میں ایک ایسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جہاں مختلف مسالک و مدارس کے علماء کرام ایک ساتھ ایک مقام پر جمع تھے،اور غور خوض اس بات پر ہو رہا تھا کہ علماء کرام کی ایک ایسی تنظیم عمل میں آئے جو بلالحاظ مسلک و مدرسہ ودیگر تقسیم کرنے والی بنیادوں سے پاک ہو۔تقریب میں علماء کی تنظیم کے مقاصدکچھ اس طرح بیان کیے جا رہے تھے کہ ہم سب ملک کر :بندگان خدا کو خالص بندگی رب کی دعوت دیں گے۔امت میں داعی گروہ ہونے کا شعور بیدار کریں گے۔ دینی امور میں عوام کی رہنمائی کریں گے۔ وقت کے فتنوں کے سد باب کے لیے جدو جہد کریں گے۔ نظام زندگی کو خدا کے روبرو جوابدہی کے احساس پر قائم کریں گے۔ برائیوں کو مٹانے اور بھلائیوں کے فروغ کے لیے اجتماعی فضا ہموار کریں گے۔ امت کے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کریں گے۔منظم، منصوبہ بنداور طے شدہ اہداف کے تحت مقاصد کے حصول کے لیے سرگرمیاں انجام دیں گے۔پھر سوال اٹھا کہ وابستگی کا معیار کیا ہو؟تو کہا کہ ہر وہ شخص جو انڈین یونین کا شہری ہو اور جو دینی مدرسہ سے سند یافتہ ہو یا بحیثیت امام و دینی معلم خدمات انجام دے رہا ہو، اس تنظیم کا رکن بن سکتا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ تنظیم اپنی تمام سرگرمیوں میں شرعی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے، پر امن ،دستوری اور اخلاقی حدود کی پابند رہے گی۔ تنظیم مخصوص مسلک و مدرسہ کی شناخت کے بغیر، علماء کرام کو بحیثیت عالم دین،مقصد و نصب العین اور سرگرمیوں کے لیے آمادہ کرے گی۔ اپنے تمام اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے تنظیم علمی ، ترغیبی ، تبلیغی،اور اشاعتی جیسے پر امن ،تعمیری اور قانونی طریق کار اختیار کرے گی ۔ نیز ایسے تمام افعال سے احتراز کرے گی جو سچائی اور دیانت داری کے خلاف ہوں یا جن کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ منافرت، ذات برادری کی کشمکش یا فساد فی الارض رونما ہو سکتا ہو۔خواہش تو یہ ہو رہی تھی کہ کاش ! ہم بھی عالم دین ہوتے تو اس تنظیم میں ضرور شریک ہوتے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ معزز علماء کرام جو کچھ کہ غور و خوض اور فیصلے لے رہے ہیں،اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ مختلف مدارس و مسالک کے علماء کرام کسی ایک کامن پلیٹ فارم سے وابستہ ہو جائیں؟خصوصاً ان حالات میں جبکہ امت کا شیرازہ بکھیرنے کا منظم و منصوبہ بند عمل بھی جاری ہو!
تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com