تحریر کا آغاز اسلامی تاریخ کے اک تناظر سے کرتے ہیں، جسکی بنیاد پر دلائل کو مرتب کرکے اس بات کی عکاسی کی جاسکے کہ سائنس کا کوئی مذہب نہیں۔ کسی بھی ہندو، یہودی، سکھ، یا کسی غیر مسلم کی دریافت یا ایجاد کو اس لیے رد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ غیر مسلم ہے۔
جنگ بدر کے موقع پر قریش کے قیدیوں میں سے جو لوگ مالی فدیہ دینے کے قابل نہ تھے، ان کی رہائی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ ( مسند احمد، طبقات ابن سعد، کتاب الاموال )
اس نقطہ پہ پہنچ کر ایک بات ذہن میں یہ آتی ہے کہ کفار کے جنگی قیدی مسلم بچوں کو کیا سکھائیں گے? بہر کیف یہ تو طے ہے کہ کفار کے پڑھے لکھے قیدی مسلم بچوں کو اسلامی تعلیمات تو نہیں دیتے ہوں گے۔ تو اس مطلب یہ ہوا کہ پڑھے لکھے قیدی مسلمان بچوں کو دنیاوی تعلیم دیتے ہوں گے۔ موضوع پر آنے سے پہلے یہ بات اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی لازم ہے اور نبی کریم ﷺ کی سنت اس بات کی سند ہے۔
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں. دورِ جدید میں ہر شخص سائنس کے کرشمات سے فیضیاب ہو رہا ہے۔ آسمان میں اڑتے جہازوں سے لے کر زمین پہ چلتی گاڑیوں تک، گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی سے لے کر موبائل فونز اور تیز ترین انڑنیٹ تک، طب کے میدان سے لے کر دفاعی میدانوں میں ترقیوں تک ہر شے سائنسدانوں اور محققین کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ دنیا میں بسنے والے ہر بشر کو یہ تمام چیزیں استعمال کرنے سے پہلے انسانیت کے ان محسنوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں سائنس کے لیے وقف کر دیں۔ کسی بھی سائنسدان کی ایجاد یا سائنسی میدان میں خدمات کو اس لیے رد نہیں کیا جانا چاہئیے کہ اس کا تعلق اسلام سے نہیں۔ یہ بات اس لیے لکھی کہ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہودیوں کی ایجاد کردہ چیزوں کو دھڑلے سے استعمال تو کرتا ہے لیکن حسبِ توفیق ان کو گالیاں بھی بکتا ہے۔ یہ بات صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے اسلامی ممالک کا یہی حال ہے۔ بہر حال ہم سب کو اخلاقی جرِات کا مظاہرہ کرتے ہو ئے سائنسی میدانوں میں خدمات دینے والوں کی فراخ دلی کے ساتھ قدر کرنی چاہئیے یا پھر ان کی ایجاد کردہ چیزوں کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔ اہمیت کی ایک بات یہ بھی ہے کہ یہی طبقہ مسلمان سائنسدانوں کو حد سے زیادہ پزیرائی بخشتا ہے۔
اس معاملے پر مزید روشنی ڈالنے سے پہلے ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سائنس کے طالب علم اور اک محقق کی حثیت سے میں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ سائنس رکے ہوئے پانیوں کی مانند نہیں ہوتی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کسی بھی سائنسی برانچ سے وابستہ لوگ اس میں نت نئی چیزوں کا اضافہ کرتے رہتے ہیں اور ہر شخص اپنے تحقیقاتی مقالوں میں اپنی بات کرنے سے سابقہ لوگوں کے کیے ہوئے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی کاوشوں کو سراہتا ہے۔ لہٰذا مسلمان سائنسدانوں کے کاموں کو کسی غیر مسلم سائنسدان نے کبھی مذہب کو بنیاد بناتے ہوئے رد نہیں کیا لیکن 19 صدی کےآخر سے لے کر 21 صدی کے آغازتک سائنس نے بہت ترقی کی اور ہمیں یہ بات ماننا ہوگی کہ اس میں مسلمان سائنسدانوں کا عمل دخل آٹے میں نمک برابر رہا۔ دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں کسی بھی لیڈر نے تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی چاہے وہ عرب ممالک کے حکمران ہو یا برصغیر کے حکمران۔ پاکستان میں بھی جتنی قدیم جامعات ہیں، کم بیش تمام کی تمام برطانوی راج کی علامت ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے باعث ان کی تعلیمی معیار میں کمی آئی ورنہ انہی درسگاہوں میں کئی ممالک کے شاہی خاندانوں کے چشم و چراغ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ ہم بحثیتِ قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنے تعلیمی اداروں کو مذہبی، لسانی اور صوبائی تعصبات سے پاک نہیں کرتے، اور جب تک ممبر ِرسول ﷺ پہ بیٹھا ہوا عالم اس بات کی تعلیم نہیں دیتا کہ دنیاوی تعلیم بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی اسلامی تعلیم۔
دنیاوی تعلیم کے بغیر دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو شکست نہیں دی جا سکتی اور دنیاوی علوم کا حصول کسی بھی طور غیر اسلامی نہیں۔ بات بہت دور نکل گئی۔ آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ہمیں بحیثیت مسلمان اتنا فراخ دل ہونا چاہئیے کہ ہم کسی بھی ایجاد کے خالق کو عزت بخشیں۔ اگر ہم نے کسی بھی ایجاد کو اس لیے رَد کرنا ہے کہ اسکا خالق کوئی غیر مسلم ہےتو ہمیں اک اچھے مسلمان کی حثیت سے اور کے تخلیق کردہ بجلی کے نظام کو، کے تخلیق کردہ ہوائی جہاز کو، کے ایجاد کردہ سٹیم انجن کو جس کی بنیاد پہ گاڑیوں کے، اور ریل گاڑیوں کے انجن وجود میں آئے اور کے ایجاد کردہ ٹیلی فون کو جسکی جدید شکل موبائل فونز کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، ان تمام چیزوں کو استعمال نہیں کرنا چاہئیے۔ اگر ہم ان چیزوں کا استعمال ترک نہیں کر سکتے توکم از کم ان لوگوں کی عزت لازمی کرنی چاہئیے جو ان کے تخلیق کار ہیں۔
جہاں تک ان سائنسداوں کے عقائد کا سوال ہے تو یہ خالق اور مخلوق کے درمیان کا معاملہ ہے اور ہم بحیثیت انسان کسی دوسرے شخص کو جنت یا جہنم کا پروانہ نہیں دے سکتے۔
اختتام پر چند اشعار افتخار عارف کے
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
رحمت سید لولاک پہ کامل ایمان
امت سید لولاک سے خوف آتا ہے
اور حبیب جالب کے چند اشعار
میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا