امریکی سائنسدانوں نے دعوی کیا ہے کہ موت دو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے انسانی جسم میں سفر کرتی ہے۔ طبی ماہرین اور محققین نے مختلف تحقیقات کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی کہ روح کتنی دیر میں قبض ہوتی ہے۔امریکی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موت کی رفتار کو کمپیوٹیشنل ماڈل کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا، یہ انتہائی پیچیدہ عمل تھا جس میں کئی بار ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ماہرین کے مطابق انسانی جسم کے خلیات میں موت کے سفر کو شعبہ طب کی زبان میں ‘ایپوپٹوسس’ کہتے ہیں جس کا عملی مشاہدہ پہلی بار جدید لیب میں کیا گیا۔اسی طرح امریکا کے ماہرین نے ایک اور مطالعاتی تجزیہ کیا جس میں روح قبض ہونے کی رفتار کو دیکھا گیا۔ امریکا کی سٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ موت کے کچھ عرصے بعد تک انسان کے بال اور ناخن بڑھے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جسم کے تمام خلیات بیک وقت مردہ نہیں ہوتے بلکہ موت انسانی جسم میں آہستہ آہستہ پھیلتی ہے۔ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ انسانی جسم میں موت کے پھیلاؤ کی رفتار ریکارڈ کرنے اور اس کا مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ محققین کا کہنا ہے کہ موت تقریباً دو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے انسانی جسم میں سفر کرتی ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے جسم کے خلیات (سیلز) کے درمیان 20 سے 30 مائیکرو میٹرز کا فاصلہ ہوتا ہے، انسان کو مکمل مرنے میں تقریباً پانچ گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں ماہرین نے موت کے بعد انسانی دماغ کے کام کرنے کے حوالے سے تحقیق کی تھی جس کی بنیاد پر ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ انسان کو اپنی موت کا خود بھی احساس ہوتا ہے کیونکہ اس وقت دماغ کام کر رہا ہوتا ہے۔ ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ طویل عرصے ‘موت کے بعد’ کے حوالے سے جاری تحقیق کے حتمی نتیجے پر پہنچ چکے۔