counter easy hit

سائنسدانوں نے ’’کائنات کا پہلا ایکسرے‘‘ کرلیا

برلن / ماسکو: روسی اور جرمن ماہرین نے کائنات کی پہلی ایکسرے تصویر جاری کردی ہے جو ’ای روسیٹا‘ نامی ایکسرے خلائی دوربین سے حاصل کی گئی ہے۔ اس ایک تصویر میں دس لاکھ سے زیادہ فلکی اجسام کو ایکسریز خارج کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

کائنات کی اس پہلی ایکسرے تصویر میں دس لاکھ سے زائد فلکیاتی اجسام ایکسریز خارج کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ (فوٹو: ای روسیٹا)

کائنات کی اس پہلی ایکسرے تصویر میں دس لاکھ سے زائد فلکیاتی اجسام ایکسریز خارج کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ (فوٹو: ای روسیٹا)

ای روسیٹا‘ (eROSITA) دراصل ’’ایکسٹینڈڈ روئنتجن سروے ود این امیجنگ ٹیلی اسکوپ ایرے‘‘ کا مخفف ہے جو 2019 میں خلاء میں بھیجی جانے والی رصد گاہ ’’اسپیکٹرم روئنتجن گیما‘‘ (ایس آر جی) کا اہم ترین حصہ ہے۔ اگرچہ اس خلائی رصد گاہ کا مقصد ’’تاریک توانائی‘‘ پر تحقیق کرنا ہے تاہم اس مقصد کےلیے اسے مختلف اجرامِ فلکی سے خارج ہونے والی ایکسریز کو خصوصی طور پر اپنے مشاہدے میں شامل رکھنا ہے۔

واضح رہے کہ ایکسریز بھی دراصل برقی مقناطیسی (الیکٹرو میگنیٹک) شعاعیں ہی ہوتی ہیں مگر اوّل تو ان کی توانائی بہت زیادہ ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ انسانی آنکھ انہیں دیکھ نہیں سکتی۔ سورج سے دیگر کئی طرح کی شعاعوں کے ساتھ ساتھ ایکسریز بھی خارج ہوتی ہیں جنہیں زمینی فضا کا حفاظتی غلاف ہم تک پہنچنے سے روک لیتا ہے اور یوں ہم ان شعاعوں کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہتے ہیں۔
طبّی تشخیص میں ایکسریز کا استعمال گزشتہ ایک صدی سے جاری ہے جو آج ایک معمول کی بات ہے۔ تاہم بہت زیادہ ایکسرے کروانے کا نتیجہ بھی کینسر کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔

ستاروں کے علاوہ جب بلیک ہولز اپنے ارد گرد بکھرے ہوئے مادّے کو ’’ہڑپ‘‘ کرتے ہیں تو اس سے بھی زبردست ایکسریز خارج ہوتی ہیں جنہیں بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے کی ’’آخری چیخ‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس تصویر میں ایسے ہی کئی ستارے اور بلیک ہولز دیکھے جاسکتے ہیں جنہیں انسانی آنکھ کےلیے قابلِ مشاہدہ بنانے کی غرض سے الگ الگ رنگ دیئے گئے ہیں۔

Erosita

Erosita

یاد رہے کہ ای روسیٹا/ آر ایس جی منصوبہ چار سال پر محیط ہے جو 2023 میں مکمل ہوگا۔ اس کا مقصد نہ صرف کہکشاؤں کے مرکزوں میں موجود عظیم و جسیم (سپر میسیو) بلیک ہولز کی نشاندہی کرنا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایسے ہزاروں کہکشانی جھرمٹوں کا باریک بینی سے جائزہ بھی لینا ہے جنہیں کائنات کی سب سے کمزور قوت ’’کششِ ثقل‘‘ نے بڑی مضبوطی سے آپس میں باندھ رکھا ہے۔

کہکشانی جھرمٹوں کی ساخت اور ان میں حرکت سے متعلق تفصیل سے جان کر ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ ’’تاریک توانائی‘‘ کے بارے میں بھی کچھ بتا سکیں، جسے ایک ایسی ’’پراسرار‘‘ توانائی بھی قرار دیا جاتا ہے جو کائناتی پھیلاؤ کی رفتار میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔

یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ ای روسیٹا نے صرف چند ماہ میں ایکسریز کی مدد سے کائنات کا جتنا مشاہدہ کیا ہے، وہ گزشتہ 60 سال کے دوران ایکسرے فلکیات میں کیے گئے تمام مشاہدات سے کم از کم دُگنا زیادہ ہے۔

البتہ، ای روسیٹا کا کام تو ابھی شروع ہوا ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی ہمیں کائنات کی اس سے بھی زیادہ خوبصورت اور مفصل ایکسرے تصویریں دیکھنے کو ملیں گی۔