ایڈز وہ موذی مرض ہے جس کا تاحال علاج دریافت نہیں ہو سکا،تاہم اب سائنسدانوں نے ایک ایسی ویکسین ایجاد کر لی ہے جو کھالینے سے آدمی ایڈز کے مرض میں مبتلا ہی نہیں ہو گا۔ ویب سائٹ advocate.com کی رپورٹ کے مطابق یہ حیران کن ویکسین امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجیز اینڈ انفیکشس ڈیزیزز کے سائنسدانوں نے ایجاد کی ہے جس کے چوہوں، سوروں اور بندروں پر کامیاب تجربات کیے جا چکے ہیں اور اب اسے انسانوں پر آزمانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر کیوونگ کا کہنا تھا کہ ”اس ویکسین نے چوہوں، اور بندروں میں کامیابی کے ساتھ ایسی اینٹی باڈیز پیدا کیں جو ایڈز کے وائرس کے خلاف مدافعت رکھتی ہیں۔ہم نے اس ویکسین کی تیاری کے لیے ایچ آئی وی کے وائرس کے سٹرکچر کا تفصیلی تجزیہ کیا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کے کون سے حصے ایسے ہیںجو کمزور ہوں اور انہیں ویکسین کے ذریعے مزید کمزور یا ختم کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد جب ہم نے ویکسین تیار کرکے جانوروں پر اس کے تجربات کیے تواس نے وائرس کے ان حصوں کو بالکل بے اثر کر دیاتھا جو کہ ہماری ٹیم کی بڑی کامیابی ہے جو ایچ آئی وی کے انسداد کے لیے موثر اور محفوظ ویکسین تیار کرنے کی جدوجہد میں ایک سنگ میل ثابت ہو گی۔ سعودی عرب میں ایڈز کے مریضوں کے اعداد و شمار نے سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ سب سعودی عرب کو ایڈز سے پاک کی لعنت سے پاک ملک سمجھتے تھے۔ذرائع کے مطابق سعودی وزارت صحت کے ماتحت انسداد ایڈز قومی پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سناء مصطفی فلمبان نے بتایا ہے کہ 1985ء سے لیکر 2019ء تک سعودی عرب میں ریکارڈ پر آنے والے ایڈز کے مریضوں کی تعداد 20ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ان میں سے 7500سعودی اور 12ہزار سے زیادہ غیر ملکی ہیں۔ 2018ء کے دوران مملکت میں ایڈز کے مزید 533سعودی مریضوں کا پتا چلا ہے۔ ایڈز سے متاثرہ مریضوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس موذی مرض کی شکار نکلیں۔ 6 مرد مریضوں کے مقابلے میں ایک خاتون بھی ایڈز کی مریضہ ہے۔ ڈاکٹر سناء نے یہ انکشافات معروف سعودی ویب سائٹ سبق سے گفتگو کے دوران کیے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دِنوں ایک سعودی صحافی ابراہیم الفرحان کی جانب سے ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا گیا کہ سعودیہ میں ایڈز کے 83 فیصد مریضوں کی عمریں 15 سے 49 برس کے درمیان ہیں۔ ابراہیم الفرحان کے اس پروگرام میں ایک شہری محمد کا قصّہ بھی بیان کیا۔ جس کی شادی کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں یہاں تک کہ شادی ہال کی بکنگ بھی کروا لی گئی۔ اسی دوران جب اُس نے اپنا میڈیکل ٹیسٹ کروایا تو یہ جان کر اُس پر قیامت ٹوٹ پڑی کہ وہ ایڈز کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہے، اُس کے جسم کے 99فیصد حصّے میں ایڈز سرایت کر چکا ہے۔اسی طرح ایک اور علی نامی شہری کا قصّہ بھی بتایا گیا۔ جس نے اولاد نہ ہونے پر دُوسری شادی کی تو اُس کی پہلی بیوی نے جلن کے مارے اُسے کسی طریقے سے ایڈز کا مریض بنا دیا۔ ایک اور واقعہ میں عبداللہ نامی شہری کا ذکر کیا گیا جسے ایڈز کے مرض میں مبتلا ہونے پر ملازمت سے برطرف کردیا۔ حالانکہ سعودی قانون کے تحت کسی بھی ملازم کو ایڈز کے مرض میں مبتلا ہونے پر برطرف نہیں کیا جا سکتا