لندن (ویب ڈیسک) سنہ 2015 میں فلپ سیفر اور والدیمر زیلر اپنے ایک نئے کاروباری منصوبے کے لیے فنڈز اکھٹے کر رہے تھے جب انھوں نے محسوس کیا کہ ان سے ایک غیر معمولی سوال بار بار پوچھا جا رہا ہے۔پیسے عطیہ کرنے والے لوگ یہی پوچھتے رہتے کہ ’کیا یہ کنڈوم جانوروں کے اجزا سے پاک (ویگن) ہیں؟‘
نامور خاتون صحافی کیٹ بریڈی بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔سیفر بتاتے ہیں کہ ’ہمیں اس وقت تک یہ احساس ہی نہیں تھا کہ کنڈومز میں عام طور پر جانوروں کے پروٹین شامل کیے جاتے ہیں تاکہ لیٹکس کو نرم تر بنایا جا سکے۔‘برلن سے تعلق رکھنے والے یہ انٹرپرینورز بین الاقوامی کنڈوم مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے جس میں سالانہ آٹھ ارب ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے، اور وہ اس کے لیے ماحول کے تحفظ کے خواہشمند افراد کو اپنی جانب راغب کرنا چاہ رہے تھے۔انھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ خواہش رکھنے والے گاہک بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں اور چار سال بعد ان کی ماحول دوست، ویگن پراڈکٹس کی برانڈ سالانہ 50 لاکھ یورو کما رہی ہے۔ان کی کمپنی آئن ہارن کا جرمن زبان میں مطلب یونی کارن یا ایک سینگ والا گھوڑا ہے۔ لیکن نام اور تصور ایک طرف، ان دونوں کا کہنا ہے کہ یہ نام درحقیقت ایک ارب ڈالر سے زائد منافع کمانے والی سٹارٹ اپ کمپنیوں ایئر بی این بی اور ڈیلیورو کی جانب اشارہ ہے۔ویسے تو سیفر اور زیلر اب تک 10 ہندسوں کے منافع تک نہیں پہنچے مگر اپنے کاروبار کی بنیاد پائیدار ماحول دوستی پر رکھنے میں انھیں کامیابی ملی ہے، اور ایسا صرف اس لیے نہیں کہ ان کی مصنوعات عوام میں مقبول ہیں۔بلکہ ایسا اس لیے بھی ہے کہ اپنی برانڈ میں ماحول دوست اقدار کو متعارف کروانے سے ان کے لیے کاروباری برادری میں ایسے دروازے کھلے ہیں جن تک رسائی دوسری صورت میں مشکل تھی۔
گولیوں کے بعد کنڈوم امتناعِ حمل کے لیے جرمنی کا دوسرا سب سے پسندیدہ ذریعہ ہے، مگر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ شاپنگ کرتے ہوئے سیفر کو یہ احساس ہوا کہ برانڈنگ کس قدر قدیم سی تھی۔انھیں محسوس ہوا کہ آج کے صارفین شاید ایک ماحول دوست متبادل کو قبول کریں۔ انھوں نے شروع میں اس تصور کو مسترد کردیا مگر اس کے بعد زیلر نے اس پراڈکٹ کو آن لائن فروخت کے لیے مثالی قرار دیا۔ یہ دونوں ایسا کاروبار شروع کرنا چاہتے تھے جو نہ صرف دنیا کے لیے منصفانہ اور ماحول دوست و پائیدار ہو بلکہ ان کے ملازمین کے لیے بھی۔سٹارٹ اپس کی دنیا میں ایک دہائی گزار لینے کے بعد وہ سرمایہ دارانہ خوابوں سے باہر نکلنے کی راہ ڈھونڈ رہے تھے۔ سیفر کہتے ہیں کہ ’اگر آپ نے مجھ سے بچپن میں پوچھا ہوتا کہ مجھے بڑے ہو کر کیا بننا ہے، تو میں آپ سے کہتا کہ کروڑ پتی بننا ہے۔ مگر انٹرپرینور بننے کے 10 سال بعد میں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ کروڑوں کما رہے ہیں مگر خوش نہیں ہیں۔‘ابتدا کے لیے انھوں نے ایک کراؤڈ فنڈنگ یعنی عوام سے عطیات جمع کرنے کی مہم شروع کی جس میں انھیں ایک لاکھ یورو (ایک لاکھ 11 ہزار ڈالر، یا 84 ہزار 400 پاؤنڈ) حاصل ہوئے، اور یہی وہ مرحلہ تھا جب ویگن ازم یعنی اشیا کو جانوروں کے اجزا سے پاک رکھنا ان کی کمپنی آئن ہارن کی پراڈکٹ منصوبہ بندی کا حصہ بنا۔سیفر کہتے ہیں کہ ’ہم ایسی پراڈکٹ بنانا چاہتے تھے جس کا آن لائن فروخت کرنا
اور ترسیل کرنا آسان ہو، اور ایسی پراڈکٹ جس میں ہمیں واپسی کے کام میں نہ الجھنا پڑے کیونکہ آن لائن کاروبار میں یہ سب سے بڑے اخراجات میں سے ہے۔ چنانچہ کنڈوم ہی بہترین پراڈکٹ تھے۔ ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ ویگن ہوں گے یا نہیں۔‘بھلے ہی اب وہ دن کافی حد تک جا چکے ہوں جب کنڈوم نوعمر بھیڑوں کی آنتوں سے بنائے جاتے تھے، مگر بازار میں موجود اب بھی زیادہ تر کنڈومز میں جانوروں کا پروٹین ’کیسین‘ پایا جاتا ہے۔ویسے تو کنڈومز کا بنیادی جُز لیٹیکس ہوتا ہے۔ یہ ربڑ کے درختوں سے نکلنے والا قدرتی دودھیا عرق ہوتا ہے، جسے ایشیا کے گرم و مرطوب علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ ممالیہ جانوروں کے دودھ میں پائے جانے والے کیسین پروٹین کو لیٹیکس نرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مگر آئن ہارن کیسین پروٹین کا استعمال کرنے کے بجائے پودوں سے حاصل ہونے والے ایک قدرتی جُز پر انحصار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ جس قدر ممکن ہو، اتنے ماحول دوست انداز میں لیٹیکس حاصل کرے۔آئن ہارن ماحول دوست یا ویگن کنڈوم بنانے والی دنیا کی پہلی کمپنی بالکل بھی نہیں تھی۔ شمالی امریکی برانڈ گلائیڈ نے سنہ 2013 میں یہ ٹائٹل حاصل کر لیا تھا۔ تب سے اب تک پہلے سے کہیں زیادہ ماحول دوست متبادل مصنوعات بازار میں آئی ہیں جو کنڈومز کی بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہیں۔ سنہ 2026 تک اس مارکیٹ کی قدر 15 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ویسے تو یہ مارکیٹ اب بھی نئی ہے مگر آئن ہارن نے پایا ہے کہ
ان کے زیادہ تر صارفین 20 سے 40 سال کی عمر کے درمیان کے ہوتے ہیں جبکہ 60 فیصد گاہک خواتین ہوتی ہیں۔سیفر کہتے ہیں کہ ’کئی لوگوں کو اب بھی کنڈوم جیسی پراڈکٹس خریدتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے اور وہ اسے اپنی باقی خریداری کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ ہم باشعور گاہکوں تک ایک ماحول دوست پراڈکٹ پہنچائیں، اور اپنے شوخ ڈیزائنز سے ان کے بارے میں غلط تاثرات کو ختم کریں۔‘گذشتہ 30 سالوں میں وسیع پیمانے پر ربڑ کے درختوں کی کاشت سے جنگلات کو نقصان پہنچا ہے جس نے جنگلی حیات کے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے آئن ہارن نے روایتی کاشت کے بجائے تھائی لینڈ میں چھوٹے زمینداروں کے ایک گروپ سے مل کر کام شروع کیا ہے۔یہ کسان جہاں تک ممکن ہو کیڑے مار ادویات کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں اور خودرو پودوں کی صفائی کے لیے اوزاروں کا استعمال کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ کاشتکاری کو مکمل طور پر کیمیکلز سے پاک کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے بھی آزمائشیں جاری ہیں کہ کون سی مقامی نوع زیادہ حیاتیاتی تنوع کو فروغ دے گی۔مختلف تحقیقی مطالعوں نے انکشاف کیا ہے کہ ربڑ کے کچھ باغوں میں کام کی صورتحال میں سنگین مسائل ہوتے ہیں چنانچہ آئن ہارن کی ’فیئرسٹینیبلٹی‘ ٹیم کا مقصد یہ ہے کہ سال میں کم از کم تین ماہ تک سائٹ پر موجود رہ کر پیداوار پر نظر رکھی جائے۔ یہاں کسانوں کو کم سے کم اجرت سے 15 فیصد زیادہ اجرت دی جاتی ہے اور ملازمین کو ان کے
حقوق سے آگاہ کرنے کے لیے پراجیکٹ منعقد کیے جا رہے ہیں۔ماحول دوست پیکجنگ پر اب بھی کام جاری ہے۔ ویسے تو کمپنی کی اصل پیکجنگ مکمل طور پر دوبارہ قابلِ استعمال کاغذ سے تبدیل ہوچکی ہے مگر اگلا مرحلہ ایلومینیئم کے استعمال کے بغیر زیادہ ماحول دوست پیکٹس بنانا ہے۔آئن ہارن کو امید ہے کہ دیگر کاروبار بھی ان کا ماحول دوستی کا تصور اپنائیں گے۔ ایسا انھوں نے ’انٹرپرینورز پلیج‘ نامی ایک وعدے پر دستخط کر کے کیا جب انھوں نے اس کاروبار کی بنیاد رکھی تھی۔سنہ 2010 میں بل گیٹس اور وارن بفٹ کی جانب سے ‘دی گیونگ پلیج’ یعنی دولت عطیہ کرنے کے وعدے سے متاثر ہو کر یہ وعدہ شروع کیا گیا تھا جس کے تحت آئن ہارن کو اپنے منافع کی 50 فیصد رقم سے ماحول دوست پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔سنہ 2018 میں اس نے اپنے 10 فیصد منافعے کو اپنے کاروبار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو زائل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سے ان پراجیکٹس مثلاً جنگلات دوبارہ اگانے کی فنڈنگ کی گئی جن سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی ہو۔ اس کے علاوہ بائیوری فاؤنڈیشن میں بھی سرمایہ کاری کی گئی جو ماحول دوست اور قدرتی انداز میں کپاس کی پیداوار کو فروغ دیتی ہے۔تقریباً 100 دیگر انٹرپرینیورز نے بھی اس وعدے پر دستخط کیے ہیں اور یقینی طور پر اس سے آئن ہارن کے کاروبار کو فروغ ملا ہے۔ ان کے کاروبار کی پہلی بڑی کامیابی ٹوائلٹ اور گھر میں استعمال کی اشیا بنانے والی جرمن کمپنی ڈی ایم کے ساتھ معاہدے کا طے پا جانا تھا۔سیفر کہتے ہیں کہ ’
جب ہم نے ڈی ایم کو بتایا کہ ہماری خریداری اور پرچون کی قیمتیں کیا تھیں تو وہ قائل نہیں ہوئے۔‘ جہاں آئن ہارن کے سات کنڈومز کا پیکٹ ریٹیل میں چھ یورو کا ملتا ہے، وہیں بڑی کنڈوم کمپنیاں پانچ یورو میں آٹھ کنڈومز کا پیکٹ فروخت کر رہی تھیں۔ ’مگر ہم نے انھیں سمجھایا کہ ہم 50 فیصد منافعے کو واپس لگائیں گے۔ اس لیے ہم نے ان سے کہا کہ آپ ہم سے جو بھی سینٹ لیں گے، وہ آپ کو ایک اچھے مقصد سے دور کر دیں گے۔‘ڈی ایم نے عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور آئن ہارن کو جرمنی کے مرکزی دھارے کی ریٹیل مارکیٹ میں پلیٹ فارم فراہم کر دیا۔ ڈی ایم کے مارکیٹنگ اینڈ پروکیورمینٹ ڈویژن سیبیسٹیئن بایر کہتے ہیں کہ اب پہلے سے زیادہ صارفین ماحول دوستی کے لیے فکرمند ہیں، ’اس لیے ہم نے چاہا کہ ماحول دوست متبادل فراہم کیے جائیں۔‘یقینی طور پر ماحول دوست مصنوعات کے شعبے میں ترقی کی بہت گنجائش ہے۔ جرمنی کے وفاقی ماحولیاتی ادارے کے مطابق جرمن صارفین نے سنہ 2016 میں ’ماحول دوست‘ مصنوعات پر 60 ارب یورو خرچ کیے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ رجحان جاری رہے گا۔لیکن جرمنی کے لونے برگ شہر کی لیوفانا یونیورسٹی میں ماحولیاتی محقق اینا سنڈرمین کہتی ہیں کہ جہاں ماحول دوست بازار میں آئن ہارن کنڈوم جیسی مصنوعات کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے وہیں ماحول پر ان کا ممکنہ طویل مدتی اثرات بہت محدود ہوں گے۔سنڈرمین کہتی ہیں کہ ’مخصوص طبقے کے لیے یہ مصنوعات اچھی ہیں مگر ہمیں ٹرانسپورٹ اور گھروں میں بجلی کے استعمال جیسے شعبوں پر توجہ دینی چاہیے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے زیادہ اخراجات کا سبب بنتے ہیں۔‘لیکن اس کے باوجود ان کا ماننا ہے کہ روایتی مصنوعات کے جتنے ماحول دوست متبادل ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ ’آئن ہارن جیسی کمپنیوں کے نیٹ ورک عالمی سطح پر ماحول دوست سپلائی چین جیسے معاملات کو حل کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘آج آئن ہارن کا ماحول دوستی کا تصور آگے بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ سال اس کمپنی نے 45 لاکھ انفرادی کنڈوم فروخت کیے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے سنہ 2019 کے اوائل میں 100 فیصد قدرتی طور پر اگائی گئی کپاس سے تیار شدہ ماہواری کی مصنوعات بھی متعارف کروائی تھیں۔ سیفر کہتے ہیں کہ ’ہمیں اب بھی خود کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ یہ تصور واقعی کامیاب ہو رہا ہے۔‘کمپنی نے 2020 کی گرمیوں میں برلن کے اولمپک سٹیڈیم میں ایک بہت بڑا ایونٹ منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور اس کے علاوہ یہ منصفانہ اور ماحول دوست ہونے کے اپنے تصور کو جرمن سیاست میں لانا چاہتی ہے۔تقریباً 60 ہزار شرکا پر مشتمل اس ایک روزہ ایونٹ کے ذریعے آئن ہارن کا مقصد ہے کہ جرمن پارلیمان میں کئی درخواستیں جمع کروائی جائیں تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کی پالیسی اور صنفی مساوات پر زیادہ توجہ دی جائے۔مگر اسی دوران سیفر اور زیلر کا ارادہ ہے کہ وہ آئن ہارن میں اپنے شیئرز عطیہ کر دیں گے۔ روں سال کے اختتام پر وہ اپنے شیئرز کمپنی کے نام کر دیں گے جس کا مطلب ہے کہ اسے کبھی بھی فروخت نہیں کیا جا سکے گا۔یوں اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی طور پر پائیدار کاروبار کی بنیادی اقدار محفوظ رہیں گی۔(بشکریہ : بی بی سی )