ای او بی آئی میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن اور پینشن کی عدم ادائیگی کے کیس میں سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کے مالی معاملات کا ریکارڈ طلب کر لیاہے۔
کیس کی سماعت جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، اٹارنی جنرل اور نیب پراسیکوٹر کو طلب کر لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ عدالت رپورٹس نہیں مسئلے کا حل چاہتی ہے ،ای او بی آئی میں ہونے والی اربوں روپے کی چوری کی ذمہ دار حکومت ہے، اٹھارویں ترمیم کو منظور ہوئے 6 سال ہوگئے ، ای او بی آئی کو اب تک صوبوں کے حوالے نہیں کیا گیا، اس سے تاثر ملتا ہے کہ آئین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
عدالت نے کہا کہ ای او بی آئی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا، اس کی جائیدادیں اونے پونے داموں فروخت کی گئیں، اس میں پینشنرز کا کیا قصور ہے جنہوں نے اپنی امانت سرکاری ادارے کے پاس رکھی ۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ 35 سال کی خدمات کے بعد 5 ہزار روپے کی پنشن دینا ظلم کی انتہا ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ای او بی آئی کی صوبوں کو منتقلی کے حوالے سے قانون سازی کے لئے فائل وزیر اعظم کے پاس ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو وزارت خزانہ کے فنڈز بند کرنے کا حکم جاری کر سکتے ہیں، یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ حکومت فنڈز کہاں استعمال کر رہی ہے۔ جسٹس مقبول باقرنے کہایہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ پر کتنے اخراجات کیے جا رہے ہیں؟ کیس کی مزید سماعت 11 مئی کو ہو گی۔