آج ہمیں اپنے گاؤں کا ایک بزرگ بہت یاد آرہا ہے اور اس یاد کی وجہ جناب کپتان خان کا یہ بیان ہے کہ میں خواجہ آصف کو بھی عدالت میں گھسیٹوں گا۔ ایک تو اس گھسیٹوں گا، میں گھسیٹنے کا جو لفظ ہے اس سے یوں مترشح ہوتا ہے کہ جناب کپتان خان نے گھسیٹنے اور پھر خاص طور پر عدالتوں میں گھسیٹنے کا کام مستقل طور پر یا شاید پیشے کے طور پر اپنا لیا ہو۔ اس موقعے پر ہمیں ایک نام بھی یاد آرہا ہے جس کے ساتھ اگر خان کا اضافہ ہو جائے تو اچھا خاصا معقول اور حسب حال نام بن سکتا ہے لیکن ہم گھسیٹنے کی رعایت سے وہ نام ہر گز نہیں لکھیں گے، کیا پتہ کپتان صاحب ہمیں بھی عدالت میں گھسیٹ لیں تو ہمارا تو کباڑا ہو جائے گا کہ ایک بھی تاریخ بھگتنے اور عدالتوں کے خرچے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس لیے وہ نام گھسیٹے بغیر صرف خان پر ہی گزارہ کر لیں گے۔
وہ بزرگ جو ہمیں یاد آرہا ہے بڑے کمال کے بزرگ تھے کم از کم دس پندرہ مقدمات تو اس کے عدالتوں میں چلتے رہتے تھے اور کچہریوں میں اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ چائے والوں سے لے کر چھولے والوں تک اسے نہ صرف جانتے تھے بلکہ ان کے داخل ہونے پر ہر طرف سے کچہری بابا آگیا کچہری بابا آگیا، کی آوازیں سنائی دینے لگتی تھیں کیونکہ ان سب کا مستقل گاہک اور ذریعہ آمدن کچہری بابا ہی تھا۔ درمیان میں ایک اور کہانی یاد آگئی ایک دن ہمیں ایک جاننے والے مجسٹریٹ سے کچھ کام تھا اور وہ عدالت کے بجائے سائیڈ روم میں بیٹھا دوستوں کے ساتھ گپ شپ اڑارہا تھا، ہمارا بھی دوست تھا اس لیے جا کر بیٹھ گئے۔ ایک چائے کا دور چلا تو پھر چھولے کا دور شروع ہو گیا ۔ کوئی خاص موضوع نہیں تھا یونہی ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں تو ہم نے مجسٹریٹ صاحب سے کہا کہ تم یہاں فضول وقت ضایع کر رہے ہو اور وہاں ایک بڑی خلقت اپنی تاریخ پر آئی ہوئی تمہارا انتظار کر رہی ہے جاکر ان کو نپٹاتے کیوں نہیں؟قہقہہ مارکر بولا یہ لوگ ختم ہونے والے نہیں ان کو فارغ کردوں تو کل ان سے زیادہ آجائیں گے۔
یہ خدا کا نظام ہے جو اس طرح چلتا ہے جو باہر کچہری میں چائے والے چھولے والے تکوں والے اور کچھ نہ کچھ بیچنے والے ہیں ان کی روزی روٹی ان ہی لوگوں سے بندھی ہوئی ہے، تم خود سوچو اگر ہم آج ان سب کے مقدمات ختم کردیں بلکہ من لگا کر سارے مقدمات نپٹا دیں تو یہ اتنے لوگ جو کچہری سے وابستہ ہیں کوئی کچھ بیچ رہا ہے کوئی کچھ ، کوئی کاغذ کوئی ٹکٹ کوئی لفافہ کوئی فوٹو اسٹیٹ مشین پر روزی کما رہا ہے کرائے کے ضامن اور گواہ بھی سیر آٹا کمانے کے لیے آئے ہیں، باہر رکشے وغیرہ بھی کام سے لگے ہوئے ہیں، یہ سب کے سب بے روزگار نہیں ہو جائیں گے ؟آدمی بڑا سیانا تھا مزید بولا یہ ڈی سپنڈڈ نظام ہے سب کی روزی روٹی کا انحصار کسی دوسرے پر ہے امراض ختم ہوجائیں تو ڈاکٹروں کے کلینک سنسان ہو جائیں گے اسپتال بند کرنا پڑیں گے تو دوا ساز کمپنیاں جوتے تو نہیں بیچتیں اور میڈیسن کی دکانیں چائے تو نہیں بیچ سکتیں ۔ اس لیے خدا کے نظام میں دخل دینے کی کوشش مت کرو کہ جو کچھ ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے اور بات ہماری سمجھ میں آگئی اور اب ہم نظام کے کسی بھی معاملے میں دخل نہیں دیتے۔
ہاں تو کچہری بابا اچھا خاصا کھاتا پیتا شخص تھا لیکن کچہری فوبیا کا شکار تھا یہاں تک ایک بار اس نے اپنے بڑے بیٹے کے خلاف بھی مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو بولا ، دراصل میرے مقدمات کچھ کم ہو گئے ہیں، بیچ بیچ میں ایسا روز بھی آجاتا ہے جب میری تاریخ نہیں ہوتی تو اس دن طبیعت بڑی خراب رہتی ہے اور واقعی دوچار اور مقدمات ہاتھ لگتے ہی اس نے بیٹے کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا تھا کہ ہر روز تاریخ پڑنے اور کچہری یاترا کا معمول بحال ہو گیا تھا۔
اکثر لوگ اسے کچہریوں کا غواص یا غوطہ زن بھی کہتے تھے کیونکہ وہ اکثر اپنے حریفوں کے بارے میں کہتا تھا صبر کرو ابھی تو یہ گھٹنے گھٹنے پانی میں ہے میں جب اسے گہرے پانی میں گھسیٹوں گا، دوچار مہینے تو اسے گھٹنے گھٹنے پانی میں رگڑوں گا، ضرور کچہری بابا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ ایک بالکل ہی نایاب اور منفرد کردار ہے اور اس جیسا کردار شاید ہی کوئی اور اس دنیا کو نصیب ہو جائے لیکن ہمارا خیال غلط نکلا ،دنیا میں ریکارڈ ٹوٹنے ہی کے لیے بنتے ہیں اور بننے کے لیے ٹوٹتے ہیں۔ کیونکہ جہاں تک ہمارا خیال ہے کچہری بابا واقعی کچہریوں کے غوطہ زن تھے لیکن اس کی اسپیڈ بھی اتنی نہیں تھی شاید ساری عمر میں وہ اتنے مقدمات نہ لڑا ہو جتنے ہمارے کپتان خان نے گزشتہ ایک دو سال میں لڑے ہیں بلکہ گھسیٹے ہیں، اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہمارے کچہری بابا کے ذرایع آمدن اتنے نہیں تھے اس لیے وہ مقدمات لڑے یا لوگوں کو مقدمات میں گھسیٹنے میں کفایت شعاری سے بھی کام لینے پر مجبور تھا جب کہ یہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ فنانسر خدا کے فضل سے کافی ہیں جو مستقبل کی ’’فصل‘‘ پر گھسیٹنے کے کام میں فنانس کرتے ہیں ویسے بھی ایک پورا صوبہ بھی تو ہے ۔بہرحال خواجہ آصف کو تو سمجھیے کہ گھسیٹنے کی تیاری کر لینی چاہیے، لیکن اور بھی نہ جانے کتنے لسٹ میں ہوں گے۔ جن کی قسمت میں گھسیٹنا لکھا ہے اب ہماری ان تک رسائی نہیں ہے ورنہ ایک دولوگ ہماری نظر میں بھی ایسے ہیں جو گھسیٹنے کے لیے فیورٹ ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ بھی چیخ اٹھیں کہ
گلیوں میں مری نعش گھسیٹتے پھروکہ میں
جان دادۂ ہوائے سر راہ گزار تھا