تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے سامنے حسن و جمال کا پیکر ایک نوجوان پڑھی لکھی لڑکی اپنا تلاشِ حق کا سفر درد ناک اور گلو گیر لہجے میں سنا رہی تھی اور میں ہمہ تن گوش اُس کی الم ناک داستان سن رہا تھا ۔ بقول اُس کے وہ جس مرشد کامل کی تلاش میں تھی اُس کی جھلک اُسے اِس پیر میں نظر آئی تھی پیر صاحب کی عمر تقریبا ً تیس سال تھی اور وہ ایم اے پاس تھا پیر صاحب کا کمرہ زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ میں اپنی ماں کے ساتھ اپنی باری کے انتظار میں تھی ۔ لوگ اپنی اپنی باری پر پیر صاحب سے ملتے اور میں اُن کی دنیا وی حاجات کی گفتگو اور حرکات کو دیکھ رہی تھی ۔ پیر صاحب زائرین سے پیسے بھی لے رہے تھے یہ بات مجھے کھٹکی کہ اللہ کے بندے تو لوگوں سے پیسے نہیں لیتے پھر میں نے خود ہی خو د کو سمجھا یا کہ آستانے کے اخراجات پو رے کر نے کے لیے اگر کو ئی اپنی مر ضی سے دے رہا ہے تو یہ کو ئی غلطی گنا ہ یا برُی بات نہیں ہے ۔ میں جان کے ایک سائیڈ پر اِس انتظار میں بیٹھی تھی کہ جب سب لوگ چلے جا ئیں گے تو آرام سے پیر صاحب سے ملوں گی ۔
پیر صاحب نے دو تین بار میری طرف دیکھا اور اشارے سے کہا کہ اب آپ مل لیں لیکن میں نے پہلے سے لکھی ہو ئی چٹ پیر صاحب کو تھما دی کہ میں علیحدہ آرام سے ملنا چاہتی ہو ں ۔ اب پیر صاحب آنے والے لو گوں کو تیزی سے ملتے جا رہے تھے اور بار بار گہری ٹٹولنے والی نظروں سے میری طرف بھی دیکھ رہے تھے ۔ کیونکہ پیر صاحب اب لوگوں سے جلدی جلدی مل رہے تھے اِس لیے اب کمرہ لوگوں سے خالی ہو نے لگا اور پھر جیسے ہی کمرہ خالی ہواپیر صاحب نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ اب کسی کو اندر نہ آنے دیا جا ئے اور ساتھ ہی ہمیں اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا اب میں خو شی ، عقیدت اور سر شاری میں پیرصاحب کے سامنے جا کر بیٹھ گئی پیر صاحب گہری نظروں سے میرا معا ئنہ کیا اور بو لے اب لوگ چلے گئے ہیں آپ بتا ئیں آپ کا کیا مسئلہ ہے تومیں نے اپنا مدعا بیان کیا کہ میں کسی دنیا وی مسئلے کے لیے آپ کے پاس نہیں آئی میں آپ کے پاس صرف اللہ کے لیے آئی ہوں عشق حقیقی قرب الہی اور اولیا ء کرا م کے راستے پر چلنے کے لیے راہبر اور مرشد کی تلاش میں دربدر بھٹک کر اب آپ کی چوکھٹ پر آگئی ہو ں میری جھولی میں روحانیت کا لنگر ڈال دیں مجھے اپنی غلامی میں قبول فرمائیں مجھے روحانیت کے اسرار و رموز سے آگاہی تزکیہ نفس اور خدا کی بار گاہ میں جا نے کے لیے آپ کی شاگردی کی سعادت چاہیے
پھر میں نے پیر صاحب کو اپنی تلاش اور کو ششوں سے آگا ہ کیا پیر صاحب غور سے میری طرف دیکھتے اور سنتے رہے جب میں نے اپنی تمام گزارشات گو ش گزار کر دیں تو پیر صاحب نے زور کا قہقہ لگا یا اور بو لے بی بی یہ عام لوگوں کے بس کا روگ نہیں ہے یہ خا صوں کی با ت ہے جو عام لوگوں کو نہ ہضم ہو تی ہے نہ وہ اِس مشکل پہا ڑی پر چڑھ سکتے ہیں جا ئو دنیا داری کے کام کرو راہِ حق بہت گہرا دریا ہے اس سے گزرنے کے لیے بہت کڑے مجا ہدے اور عبادات کر نی پڑتی ہیںبی بی یہاں روحانیت اور قرب الہی کی تلاش میں بہت لوگ آئے جو بڑے بڑے دعوے کر تے تھے لیکن چند دن میں ہی بھا گ گئے یہ تمھارے بس کا روگ نہیں لہذا یہ خو ش فہمی دل سے نکال دو یہ کا م تم نہیں کر سکتی میں نے بہت منت سما جت کی لیکن پیر صاحب نے انکار کر دیا کہ تم وہ مزاج نہیں رکھتی وہ جنوں اور جذبہ نہیں رکھتی جو اِس راستے کے لیے درکار ہے میں پیر صاحب کی باتوں سے مایوس اور پریشان ہو گئی کہ کس طرح پیر صاحب کو یقین دلا ئوں ساتھ ہی ساتھ میں پیر صاحب کی بے نیازی اور بزرگی کی بھی قائل ہو گئی کہ میں آج سے پہلے جس بھی پیر کے پاس گئی تھی
اُس نے فوری کہا کہ آئو میری شاگردی میں میں تم کو سب کچھ سکھا دوں گا لیکن اُن کی گندی نظریں اور لا لچ سے میں کہیں بھی نہ ٹکی ۔ یہ پہلا پیر تھا جس کی نظر میں میری خو بصورتی اور جوانی کو ئی وقعت نہ رکھتی تھی ( لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ بے نیازی بھی اِس پیر کا ایک ہتھیا ر تھا پھا نسنے کے لیے ) بہر حال میں نے یقین دلا نے کی بہت کو شش کی لیکن پیر صاحب نے انکار کر دیا لیکن آخر میں یہ سوال کیا کہ تم اِس راستے کے لیے کیا کر سکتی ہو ں تو میں نے کہا کہ میں اِس کے لیے ایک لمحے میں اپنی جا ن دے سکتی ہو ں ۔ اپنا تن من قربان کر سکتی ہو ں میری اِس با ت پر پیر صاحب مسکرائے اور کہا ٹھیک ہے میں سوچوں گا کہ تم اِس قابل ہو کے نہیں پھر پیر صاحب نے ہمیں جا نے کو کہا تو میں نے پیر صاحب سے درخواست کی کہ مجھے آستانے پر آنے کی اجازت دی جا ئے تو پیر صاحب نے اجا زت دے دی اب میں نے خو شی سے سرشار نشے میں غرق واپس آئی کہ آخر کار میں اُس مرشد تک پہنچ گئی ہوں جس کی مُجھے سالوں سے تلاش تھی میرے جنوں تلاش ، اضطراب ، بے سکونی ، خالی پن اور بے قراری کو امید کی کرن نظر آرہی تھی ۔
اب میں نے پیر صاحب کے آستانے پر جا نا شروع کر دیا میں بار بار مریدی کا تقاضہ کر تی لیکن پیر صاحب میرا اشتیاق اور جنون بڑھانے کے لیے کہتے نہیں ابھی تم اِس قابل نہیں ہو ابھی تمہا را نام ہم نے آگے بھیجا ہوا ہے ابھی وہاں سے منظوری نہیں ہو رہی جب تم اِس قابل ہو گی تو منظوری آئے پھر تم کو شاگردی میں لیا جا ئے گا ۔ کیونکہ میں دیوانہ وار بار بار پیر صاحب کے آستانے پر جا رہی تھی میرے گھر والوں نے میری دیوانگی اور بار بار جا نے پر اعتراض بھی کیا لیکن میں نے کسی پا بندی یا روک ٹوک کو خا طر میں نہ لا ئی اور مسلسل جا تی رہی اِسی دوران پیر صاحب کے والد کا سالانہ عرس مبارک آگیا تو آنے والے مریدوں نے عرس مبارک کی تیا ری اور کا میاب انعقاد کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا مریدوں نے عرس کے اخراجات کے لیے زیا دہ سے زیادہ پیسے دینے شروع کر دیے میرے پا س تو کچھ بھی نہیں تھا میں نے دوستوں سے ادھا راپنی ماں سے پیسے اور تھو ڑا بہت زیور تھا وہ بیچ کر پیر صاحب کو رقم پیش کی جب پیر صاحب نے میرے پیسے قبول کئے تو میں خو شی سے پھولے نہ سما رہی تھی کہ میں نے کو ئی ایسا کام کیا ہے جسکی وجہ سے پیر صاحب کی تو جہ حاصل کر پا ئوں گی میری اِس خدمت کے بدلے میں پیر صاحب اپنی مریدی میں لے کر اُس عظیم سفر کا راہی بنا دیں گے اور پھر عرس مبا رک کی روحانی تقریبات کا آغا ز ہو گیا
عرس کے موقع پر ہر مرید دوسرے سے سبقت لے جا نے کی کو شش کر رہا تھا میں اپنے ماں اور بھا ئی کے ساتھ عرس کے وقت وہیں پر رہے اور جو ذمہ داریاں ہما رے ذمے لگا ئی گئی تھیں ہم نے جان توڑ محنت سے اُن کو احسن طریقے سے پورا کر نے کی کو شش کی عرس کے دوران پیر صاحب کی شان بہت نرالی تھی مریدوں کا پیر صاحب سے والہانہ عشق اور اندھی عقیدت واضح نظر آتی تھی اور میں دل ہی دل میں بہت خو ش تھی کہ جس تلاش میں تھی اُس تلاش کی منزل یہیں ملے گی ۔ عرس ختم ہو گیا تو میں نے پیر صاحب سے بہت گزارش کی کہ اب میرا سفر شروع کرائیں اب مُجھ سے صبر نہیں ہو تا برائے مہربانی فقیر ی ، درویشی ،عشق حقیقی قرب الہی کا سمندر جو آپ نے پی رکھا ہے پلیز ایک قطرہ مجھے بھی پلا دیں میں نے سن رکھا تھا کہ عشق حقیقی کا ایک قطرہ صدیوں کی پیاس کو بجھا نے کے لیے کا فی ہے
اُس ایک قطرے کی تلاش میں میں دربدر بھٹک رہی تھی ہر در پر خا لی کشکول لے کر گئی تھی لیکن مجھے کہیں سے بھی خیر نہ پڑی تھی در در پر دھکے کھا نے کے بعد اِس در پر آئی تھی میرے بار بار اصرار کر نے پر پیر صاحب نے مجھے حکم دیا کہ فلاں دن تم اکیلی آئو تا کہ تمھیں روحانیت اور عشق حقیقی کی پہلی سیڑھی دکھا ئی جا سکے ۔ میں یہ سن کر خو شی سے پا گل ہو گئی کہ میری تلاش کو اب منزل ملے گی میری جستجو کی تا ریک سیا ہ رات کو اب روشنی ملے گی اور پھر مقررہ دن پر میں پیرصاحب کے آستانے پر پہنچ گئی اور پھر جب سب لو گ چلے گئے تو پیر صاحب نے مجھے سامنے بٹھا یا اور کہا عشق ِ حقیقی سے پہلے تمھیں عشق مجا زی کا جام پینا ہو گا ۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956