چیئرمین پیمرا کے عہدہ کےامیدوارسینئر صحافی اصغر علی مبارک سے سرچ کمیٹی کا انٹرویو، کمیٹی میں سرتاج عزیز، شفقت جلیل، عارف نظامی، حمید ہارون، میاں عامر محمود شامل انٹرویو کے لئے بیس نمبرز، تمام سوالات کے درست جوابات دینے، امیدوار اصغر علی مبارک
اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ) چیئرمین پیمرا کے عہدہ کے لئے چیئرمین سرچ کمیٹی سرتاج عزیز امیدواران کے پی بلاک منسٹری آف پلانننگ اسلام آباد میں انٹرویو ہوۓ سینئر صحافی اصغر علی مبارک بھی شارٹ لسٹڈ امیدواران میں سے ایک تھے جو تین عشروں سے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا سے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ھیں ،بعد ازاں انٹرویو میڈیا سے بات چیت میں سینئر صحافی اصغر علی مبارک نے بتایا کہ چیئرمین سرچ کمیٹی سرتاج عزیز کے علاوہ انٹرویو لینے والوں میں قائم مقام سکریٹری اطلاعات شفقت جلیل ،سینئر صحافی عارف نظامی ،حمید ہاروناور میاں عامر محمود شامل تھے چیئرمین پیمرا کے عہدہ کے لئے عمر کی حد ساٹھ سال مقرر ھے جس کیلئے نو مئی کو درخواستیں طلب کی گئی تھیں جس کے لیے تین خوا تین سمیت درجن بھر امیدواروں کو انٹرویو کے طلب کیا گیا، سینئر صحافی اصغر علی مبارک نے بتایا کہ چیئرمین سرچ کمیٹی سرتاج عزیزاور انٹرویو لینے والوں قائم مقام سکریٹری اطلاعات شفقت جلیل ،سینئر صحافی عارف نظامی ،حمید ہارون اور میاں عامر محمود نے صحافتی خدمات انجام دینے کے علاوہپیمرا آرڈیننس کی دفعہ 5 پر عملدرآمد پیمرا قوانین کے حوالے سے سوالات کئے جس پر تمام سوالات کے درست جوابات دےدینےگے انٹرویو کے لئے بیس نمبرز رکھے گئے ہیں خیال رھے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے میڈیا کمشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کا طریقہ کار میرٹ کے مطابق وضع کرنے کے احکامات جاری کئے تھے ۔ میڈیا کمشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہم چاہتے ہیں پیمرا آزاد ہو،ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ میڈیا کمشن تجاویز معاملے پر ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ کا کیا کام ہے، فواد حسن فواد نے عدالت کو بتایا کہ سکینگ کمیٹی میں میڈیا کے افراد کو شامل کرنے کا کہا تھا،اگر آپ سرچ کمیٹی کی بات کررہے ہیں تو ان کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سابق چیئرمین ایف بی آر معین صاحب آئے تھے،اہل لوگوں کو کمیٹی میں لگائیں، اس موقع پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے قابل لوگ نوکری کے لئے درخواست نہیں دیتے،اس موقع پر فواد حسن فواد نے کہا کہ سرچ کمیٹی نے درخواستیں دائر کرنے والوں کی اہلیت کو چانچنا ہے، عدالت کو بتایا تھا کہ چیئرمین پیمرا کے لئے ماسٹر ڈگری کی شرط رکھی گئی ھے ، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ چیئرمین اس کوبنائیں جو حقدار ہو، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین پیمرا کی تقرری کا طریقہ کار عمومی سا ہے،عدالت کو بتایاتھا کہ چیئرمین پیمرا کے لئے حد عمر 61سال ہے،وزیر اطلاعات کی سربراہی میں سلیکشن کمیٹی چیئرمین کی تعیناتی کے لئے مارکنگ کرے گی ، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ انتظامی معاملہ ہے مداخلت نہیں کریں گے ہوسکتا ہے کہ آپ کو اشتہار دوبارہ دینا پڑے،چیف جسٹس نے کہا کہ انٹرویو کے لئے بیس نمبرز رکھے گئے ہیں، کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی گئی۔ واضح رھے کہ عدالت عظمیٰ نےمیڈیا کمیشن کی سفارشات کے مطابق صحافیوں کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمداورپیمرا کو آزاد و خود مختار ادارہ بنانےکے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران چیئرمین پیمراکے ناموں کے پینل کے انتخاب کیلئے وزیر اعظم کی جانب سے تشکیل دی گئی سرچ کمیٹی کی تشکیل نو کرتے ہوئے وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب کوکمیٹی سے فارغ کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری اطلاعات کو اس میں شامل کرنے کا حکم جاری کیاتھا چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےتھے کہ میڈیاکی آزادی عدلیہ سے مشروط ہے، پیمراایک آزاداور خود مختار ادارہ ہونا چاہیے،ہم حکومت کا پیمرا پر کنٹرول ختم کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا تھا کہ پیمراآرڈ یننس میں ترامیم کے حوالے سے کیاگیاہے؟ تو انہوں نے بتایاتھا کہ وزیراعظم کی منظوری سے وزیر مملکت مریم اورنگزیب کی سربراہی میں 7رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی تھی ، جس میں نمایاں صحافی اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے )کے چیئر مین کو بھی شا مل کیا گیا ، فاضل کمیٹی چیئرمین پیمراکیلئے 3ممبران کے پینل کاانتخاب کرے گی ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام ہوتے ہوتے تو بہت وقت لگ جائے گا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کام 3ہفتوں کے اندر ہوجائے گا، انہوں نے کہا کہ فوری معاملہ چیئرمین پیمراکی تقرری کا ہے ، پیمرا آرڈیننس کی دفعہ 5 پر عملدرآمد آئینی تقاضاہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون کیخلاف ہم بھی کوئی کام نہیں کرنا چاہتے لیکن چیئرمین پیمراکے عہدہ پر صاف ستھراشخص آناچاہیے،درخواست گزار حامد میر نے فاضل عدالت کو پیمرا قانون میں ترمیم کرکے اسے خود مختاربنانے اور چیئرمین اور ممبران کی تقرری کے حوالے بتایا کہ عدالت کے سابق حکم کے مطابق قانونی ماہرین سے مشاورت سے جواب تیار کیا ہے ،انہوں نے جواب کی کاپی عدالت میں پیش کی جس کے مطابق تجویز کیا گیاہے کہ پیمرا آرڈیننس میں ترمیم کرتے ہوئے اتھارٹی کی تعداد کو چیئرمین سمیت 13افراد کے بجائے چیئرمین اور دیگر سات ممبران تک محدود کی جائے ،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا تھا کہ کیاغلط خبروں سے متعلق پیمراقانون میں کوئی شق موجودہے، جعلی خبریں بہت اہم معاملہ ہے ، ملائیشیا میں جعلی خبرچلانے کو کو فوجداری جرم بنادیا گیا ہے،جس پر فاضل لاء افسر نے کہا کہ جعلی خبروں کی روک تھام کرنا نہایت ضروری ہے، فاضل عدالت نے چیئرمین پیمراکے انتخاب کیلئے سرچ کمیٹی کی تشکیل تبدیل کرتے ہوئے وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب کوکمیٹی سے نکال کر وفاقی سیکرٹری اطلاعات کو اس میں شامل کرنے کا حکم جاری کیاتھا ، میڈیاکی آزادی عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازوں کو قانون میں ترمیم کیلئے تجویز نہیں کرسکتے ، پارلیمنٹ دفعہ 5 میں ترمیم نہ کرے تو ہم کیا کریں؟ پیمراآرڈیننس کی دفعات ہائے 5 اور6 آئین کے آرٹیکل 19 سے مطابقت نہیں رکھتیں، انہوں نے کہا تھا کہ ہم حکومت کا پیمرا پر کنٹرول ختم کرناچاہتے ہیں، پیمرا آزاد ادارہ ہونا چاہیے، حکومت پر کوئی تلوار نہیں لیکن یہ کام ہونا چاہیے، میڈیا کی آزادی عدلیہ سے مشروط ہے، عدلیہ کمزور ہوگی تو میڈیا کمزور ہوگا، اگر ہماری بات ٹھیک نہیں تو بولنا بھی بند کر دیں گے