تحریر: پروفیسررفعت مظہر
ہم ایسی بینظیر قوم ہیں کہ جس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ہم نتیجہ تو ہمیشہ اپنی مرضی کاچاہتے ہیں لیکن عمل سے ہمیشہ غافل ہی رہتے ہیں۔ شاید عمل ہماری سرشت میں سرے سے شامل ہی نہیں البتہ یہ یقینِ محکم ضرورکہ فتح ہماراہی مقدربنے گی۔جب نتیجہ ہماری مرضی کے مطابق نہیںنکلتا توہم اسے مقدرکا لکھا سمجھ کراپنے آپ کو مطمن کر لیتے ہیں۔ ہم عالمِ دیں تو نہیں لیکن اتناضرور جانتے ہیںکہ بقول اقبال
تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اِس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی
لیکن کیا کیجئے کہ یہاں تو پوری قوم ہی تقدیر کی زندانی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ آسمان سے فرشتے ان کی مدد کو اتریں گے اور وہ کامران ٹھہرے گی۔ گزری اتوار پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ تھا۔ پورا لاہور سنسان اور گلیاں ہو جان سونجیاں ،وچ مرزایار پھرے کی عملی تصویر۔ پوری قوم ٹی وی سکرین پرنظریں جمائے یہ دیکھنے کے لیے بیتاب کہ کب دِلی کے لال قلعے پرسبز ہلالی پرچم لہراتاہے ۔الیکٹرانک میڈیاکئی دنوںسے پاکستانی شاہینوں کے جھپٹنے ،پلٹنے کی نوید سناتے ہوئے کہہ رہاتھا کہ
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
قوم کو فتح کااتنا یقین کہ ہرکسی کی زبان پر تم جیتویا ہارو ،ہمیں تم سے پیارہے۔ ہوامگر یہ کہ بھارت نے ہمارے شاہینوںکی وہ دھلائی کی کہ شاہین کَرگس بن گئے اوروہی الیکٹرانک میڈیاجو پیاربھرے نغمے گا رہاتھا ایسا طوطاچشم نکلا کہ فوراََہی یہ کہنے پر اُترآیا
وہ فریب خودرہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسمِ شاہبازی
ہندوستانی الیکٹرانک میڈیانے جب طنز کے تیروںکی بوچھاڑ کردی توشرمندہ شرمندہ سے سکندربخت کویہ کہناپڑا پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔ پکچرتو واقعی ابھی باقی تھی اورہمارا ایمان بھی متزلزل نہیں ہواتھا کیونکہ ہرطرف یہی شورتھا کہ میچ فکس تھا۔ کسی نے بے پَر کی یہ بھی اُڑاڈالی کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی نے وزیرِاعظم پاکستان کوفون ہی انڈین ٹیم کی لاج رکھنے کے لیے کیاتھا۔کسی نے یہ کہاکہ جتنی دیرتک سِری نواسن آئی سی سی کاصدر ہے ،پاکستان کے ساتھ ایساہی ہوتارہے گاتو کسی نے اسے بِگ تھری کا کارنامہ قراردیا لیکن یہ سوچاتک نہ گیاکہ جب ورلڈکپ کی تاریخ کے معمرترین کپتان کی سربراہی میںٹیم میدان میںاُترے گی توپھر اس طرح توہوتا ہے ،اِس طرح کے کاموںمیں۔ ہمارے ٹُک ٹُک مصباح کے بارے میںمشہورہے کہ جس میچ میںوہ نصف سینچری سکور کرلیں وہ میچ پاکستان لازمی ہار جاتاہے ۔اِس میچ میںبھی مصباح نے ٹُک ٹُک کرتے 76 رنز بنالیے اورپاکستان میچ ہارگیا ،گویا گھرکو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے۔
چونکہ بقول سکندر بخت پکچر ابھی باقی تھی اس لیے ہم نے بھی اپنے عزمِ صمیم کومہمیز دی اورایک دفعہ پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف ہونے والے میچ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے لگے۔ ہماراخیال تھاکہ ویسٹ انڈیزمیں توکوئی ”لال قلعہ”بھی نہیںجس کے چھِن جانے کے خوف سے لرزہ بَراندام ویسٹ انڈیزکا سربراہ ہمارے وزیرِاعظم کودرخواست کرے گا۔ اب سری نواسن کاخوف تھانہ بِگ تھری کااِس لیے یہ میچ توہم آسانی سے جیت جائیںگے ۔ہمارے ذہن میںیہ خیال بھی تھاکہ ویسٹ انڈیزتو ورلڈکپ کی کمزورترین ٹیم آئرلینڈ سے بھی ہار چکاہے اِس لیے وہ بھلاہمارے ”شاہینوں”کا کیامقابلہ کرے گالیکن ہمارے بوڑھے شاہین ٹُک ٹُک مصباح نے یہ کہہ کرہمیں ڈرادیا کہ ”ہماری ٹیم میںایسے کھلاڑی ہیںکہ جس دِن یہ کھلاڑی پَرفارم کرگئے ، وہ دِن ہمارا ہوگا” ۔ مصباح کے اِس بیان کے بعدہم یہ سوچنے پرمجبور ہوگئے کہ اگرہماری ٹیم ورلڈکَپ کے آخری میچ تک بھی پَرفارم نہ کرسکی تو پھرہمارا کیابنے گا؟۔جب میںنے یہی بات اپنی ایک دوست سے کہی تواُس نے کہا”فکر نہ کرو ، ورلڈکَپ ہماراہی ہے ”۔میں نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے ؟۔ اُس نے کہا”1992 ء کے ورلڈکَپ میں بھی اسی طرح سے پاکستانی ٹیم کی دُھلائی اور دھنائی ہورہی تھی لیکن ہم پھربھی ورلڈکَپ جیت گئے کیونکہ یہ کَپ ہمارے مقدرمیں لکھ دیا گیاتھا۔
اب بھی وہی کچھ ہورہاہے اورجگہ بھی وہی اِس لیے مجھے یقین ہے کہ پاکستان ”جِتے ای جِتے”۔ہم پریشان تھے کہ اگرواقعی کوئی ایسامعجزہ رونما ہوگیا توکہیں ایسانہ ہوکہ ہمارے ٹُک ٹُک مصباح بھی وزارتِ عظمیٰ کے مضبوط ترین اُمیدواربن کر سامنے آجائیں ۔میاںبرادران کی توایک کپتان کوبھگتے بھگتے کمردہری ہوچلی ہے ،اگر دوسراکپتان بھی میدانِ سیاست میںکود پڑاتو پھرمیاںبرادران کاکیا بنے گا؟۔ویسے ہمیںیقین ہے کہ ایسا ہونے والانہیں کیونکہ ہم نے دینِ مبیںکے عین مطابق اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی بجائے ”خچروں” کومیدان میں اتارا ہواہے جس کانتیجہ تووہی ہوناتھا جوہمارے سامنے ہے۔ جَو کاشت کرکے گندم کی اُمیدرکھنا احمقوںکی جنت میںبسنے کے مترادف ہے لیکن کیا کیجئے کہ ہم توایسے ہی ہیں۔
لیجئے ! پاکستان ویسٹ انڈیزسے بھی 150 رنزسے ہارگیا اورالیکٹرانک میڈیا پھرچیخنے لگاکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے شیر ،کرائسٹ چرچ میںڈھیر۔ یہ بجاکہ یہ شکست بھی ذلت آمیزہے لیکن ہمیںخوشی ہے کہ پاکستانی شاہینوںنے ایک ”ورلڈریکارڈ” اپنے نام کرلیا ۔ہوا یوں کہ جب ہمارے شاہینوںکو یقین ہوگیا کہ وہ کسی صورت میںبھی 311 رنزکا پہاڑ عبورنہیں کرسکتے تواُنہوں نے ایک ایسی چال چلی کہ دنیانگشت بدنداںرہ گئی ۔ہمارے شاہینوںنے صرف ایک سکور کے عوض اپنے 4 کھلاڑی آؤٹ کرواکر وَن ڈے کی تاریخ کاایساریکارڈقائم کیاجسے رہتی دنیاتک نہیں توڑا جاسکے گا۔ہمارے شاہین پَت جھڑ کے پتوںکی طرح ایک ایک کرکے جھڑتے اور کالے ڈانس کرتے رہے ۔ اِس ہارکے بعد تو سکندربخت نے بھی نہیںکہا کہ پکچرابھی باقی ہے میرے دوست۔ شاید اُنہیں بھی یقین ہو چلاہے کہ ان تلوںمیں تیل نہیں۔
اس لیے بہتریہی ہے کہ ورلڈکپ میںفتح کے خواب دیکھنے کی بجائے ہم اپنی روزمرہ زندگی کی طرف لوٹ آئیںاور شاہینوں کو اُن کے حال پرچھوڑ دیںلیکن اعتزازاحسن کہہ رہے تھے کہ کھیل میں ہارجیت ہوتی رہتی ہے ،یہ ہمارے بچے ہیں،ہمیں اِن پرتنقید کرنے کی بجائے اِن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اپنارویہ یہ رکھناچاہیے کہ گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں بجا ، بالکل بجاسوال مگریہ ہے کہ اگروہ لَڑ کرہارے ہوتے توہم بھی کہتے کہ گرتے ہیں شہسوارہی میدانِ جنگ میں ،لیکن وہ توراہ ورسمِ شاہبازی سرے سے بھول چکے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کیوں کر کی جاسکتی ہے۔
تحریر: پروفیسررفعت مظہر