الیکشن کاموسم آن پنہچا ہے، تبدیلی کی تند و تیز ہوائیں چلنا شروع ہو چکی ہیں۔ پی پی پی اور ن لیگ کے درختوں سے پنچھی متوقع ’’تبدیلی‘‘ کی تلاش میں نئے محفوظ آشیانے کی تلاش میں پی ٹی آئی کے شجر سایہ دار پر بسیرا کرنا شروع کرچکے ہیں۔ ہجرت کرنے والے ’’الیکٹیبلز‘‘ نامی پرندوں کی تعداد 125 سے متجاوز ہے۔ دونوں جماعتیں اسعد بدایونی کی زبان میں گلہ کررہی ہیں کہ
پرندے کیوں مری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں
کہ اک درخت ہوں، اور سایہ دار میں بھی ہوں
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
پرندہ جانبِ دانہ ہمیشہ اُڑ کے آتا ہے
تبدیلی کی یہ ہوا 2013 کے الیکشن سے پہلے اس سے بھی زیادہ تیز رفتار تھی تاہم اس وقت یہ عوامی حمایت کے بل بوتے پر چل رہی تھی۔ تبدیلی کی خواہشمند عوام نے اپنا وزن پی ٹی آئی کے جلسوں میں ڈالا تو الیکشن نظام میں درکار ضروری اصلاحات سے بالکل لاپرواہ ہوکر پی ٹی آئی قیادت سے لے کر عام کارکن تک، سب نے سمجھ لیا کہ اگلی حکومت ہماری ہی ہوگی۔ خان صاحب نے ادائے بے نیازی سے پوری قوم کےسامنے لکھ کر دے ڈالا کہ الیکشن کے بعد حکومت ہماری ہوگی۔ عوامی حما یت کی تیز ہوتی ہواؤں کو دیکھ کر سطح بیں تجزیہ کاروں اور عام عوام کو بھی ایسا ہی محسوس ہورہا تھا۔ تاہم صرف طاہر القادری کہہ رہے تھے کہ تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک الیکشن نظام میں موجود خرابیوں کی اصلاحات نہ ہوجائیں۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کی چھلنی سے امیدوارں کی جانچ پڑتال کو لازم نہ کیا جائے، الیکشن سے پہلے احتساب نہ ہوجائے۔ لیکن نقار خانے میں تُوتی کی کون سنتا ہے؟
تاہم الیکشن کےبعد تمام جماعتوں، تجزیہ کاروں، عوام اور خود تبدیلی کے سب سے بڑے علمبردار عمران خان یہی کہتے رہے کہ ہم سے غلطی ہوگئی، ڈاکٹر طاہر القادری ہی ٹھیک کہتے تھے۔
لوگوں میں ایک آس پیدا ہوئی کہ تبدیلی کے علمبردار اسمبلی میں الیکشن اصلاحات کےلیے مؤثر قانون سازی کرنے کےلیے آواز اٹھائیں گے تو الیکشن 2018 میں کرپشن، دھن دھونس اور دھاندلی کا راستہ بند ہوگا اور صاف شفاف امیدواروں کو آگے آنے کا موقع ملے گا۔
برسوں کی محنت کے بعد اسمبلی سے الیکشن ایکٹ 2017 تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ مگر پرانے قانون کی خرابیوں کو دور کرنے کے بجائے نئے مسودہ قانون نے وہ تمام شقیں ہی ختم کردیں جن پر عملدرآمد سے چور، ڈاکو، غاصب اور کرپٹ عناصر کا راستہ رکنا تھا۔
نئے نامزدگی فارم میں اب امیدوار کو اپنے موجودہ اثاثے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں، دوہری شہریت کو ترک کرنے کا حلف دینے کی ضرورت نہیں، تعلیمی قابلیت اور ڈگری بتانے کی شرط نہیں، انکم ٹیکس گوشواروں کی معلومات درکار نہیں، بچوں کےلیے زیرکفالت کا لفظ تبدیل، بیوی بچوں کے اثاثے ظاہر کر نے کی شرط ختم، مالیاتی اداروں سے معاف کرائے گئے قرضوں کی تفصیل دینے کی ضرورت نہیں، مجرمانہ ریکارڈ مطلوب نہیں، غیر ملکی سفر کی معلومات درکار نہیں، واجب الادا یوٹیلیٹی بلز کی معلومات درکارنہیں، غلط معلومات درج کرنے پر اسمبلی رکنیت ختم کرنے کا حلف بھی ختم۔ اور یہ سب اس جماعت کی رضامندی سے ہوا جو تبدیلی کی علمبردار اور 2013 کے الیکشن سے سبق سیکھ چکی تھی۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ نیا انتخابی فارم بیرسٹر سعد رسول اور صحافی حبیب اکرم کی پیٹیشن کے نتیجے میں لاہور ہائیکورٹ سے کلعدم قرار دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کے نتیجے میں دوبارہ بحال ہوگیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے ایک اضافی حلف نامے کے ذریعے اس خیانت کو روکنے کا حکم دیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آئین سے متصادم الیکشن نامزدگی فارم پی ٹی آئی جیسی جماعت نے کیوں منظور کیا؟ اور جب ہائیکورٹ میں اس کو چیلنج کیا تو نہ ہی ان کے ساتھ پی ٹی آئی فریق بنی اور نہ ہی وہ الیکشن کمیشن جس کا کام ہی آزاد الیکشن منعقد کرانا ہے۔
’’رانجھا رانجھا کردے میں آپے ای رانجھا ہوئی‘‘ کے مصداق لیلائے اقتدار کی تڑپ میں کہیں پی ٹی آئی خود تو تبدیل نہیں ہوگئی؟ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اقتدار صرف عوامی حمایت کے بل بوتے حاصل نہیں کیا جاسکتا، اس کےلیے ’’الیکٹیبلز‘‘ نامی پنچھیوں کا ساتھ ضروری ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں یہ خاموش تبدیلی ان پنچھیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ہی کی گئی تھی جو پی ٹی آئی کے شجر کے ثمرات سمیٹنے کےلیے نقل مکانی کررہے ہیں۔ 62، 63 کی چھلنی سے یہ پنچھی زخمی ہوگئے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟