کچھ ذاتی اور تعلیمی مصروفیات سے فرصت ملنے کے بعد مجھے اسلام آباد پریس کلب کے مقام پر پختون اور فاٹا کے قبائلی بھائیوں کے دھرنے میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔سینکڑوں کی تعداد میں آئے ہوئے قبائلی بھائی جن میں اکثریت دور سے آنے والے وزیرستان کے محسود قبیلہ سے ہے، اس دھرنا میں شریک نظر آئے۔ در حقیقت یہ دھرنا حالیہ واقعات میں پختون قبائل کے ساتھ کئے جانے والے مظالم اور خاص کر کراچی میں شہید کئے جانے والے نقیب اللہ محسود کے خون کا حساب مانگنے، اور ان کے قاتلوں کو سزا دلوانے کی کڑی ہے۔
پرامن طریقہ سے یہ احتجاج کئی روز سے جاری ہے اور حاکمِ وقت کی طرف سے کسی بھی امدا د یا انکی آواز سننے کے لئے کسی بھی طرح کے عملی اقدام کا نظر آنا تو دور کی بات، ایسی کسی بات کا ذکر تک سننے کو نہیں ملا۔ اسلام آباد کے اس سرد موسم میں دن رات ایک کھلی جگہ میں بیٹھے ہوئے مظاہرین کا یہی کہنا ہے کہ جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا ہم یہاں سے کسی بھی صورت میں جانے والے نہیں۔
پریس کلب کے ساتھ ہی مجھے وہاں دو اور ریلیاں نظر میں آئیں۔ پہلی نظر میں ایسا لگا کہ جیسے بہت سے مقامی لوگ دھرنے میں شرکت کرنے آگئے ہوں۔ دل میں اس خیال نے فوراً جگہ بنائی کہ آگے بڑھ کر دیکھنا چائیے کہ کتنی تعداد میں مقامی لوگوں کی آمد ہو رہی ہے۔ قریب جانے پر معلوم پڑا کہ وہ پی ٹی آئی اور کسی ایک اور تنظیم کے لوگ ہیں جو پاکستان اور کشمیر کے جھنڈے ہاتھوں میں لئے چل رہے ہیں۔ ان کی زبان پر “کشمیر بنے گا پاکستان” کا نعرہ ہے۔ یہ 5 فروری کا دن تھا جو پورے پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن پورے پاکستان میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جاتی ہے۔
ایک طرف احتجاج جس میں پختون قبائل بار بار اپنے مطالبات میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اور لائوڈ سپیکر پر پیش کررہےتھے۔ان کے مطالبات میں سے ایک دیرینہ مطالبہ یہی ہے کہ ہم پاکستانی ہیں،ہمیں پاکستانی تسلیم کیا جائے اور ہمارے ساتھ کئے جانے والے مظالم بند کئے جائیں جن میں بے گناہ افراد کا قتل اور ماورائے عدالت نقیب محسود جیسے قتل کی تفصیل شامل ہے۔
حد درجہ حیرانگی کی بات ہے اور جو کہ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنی پڑ رہی ہے، کہ جہاں ایک طرف تو بڑی تعداد میں آئے ہوے لوگ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرےلگا رہے تھے اور پورا میڈیا اسکی کوریج کو بے قرار ہو رہا تھا مگر دوسری طرف اس کے قریب 20 میٹر کی دوری پر بیٹھے ہوئے مظلوم قبائل کے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بھی کسی اہمیت کے حامل نظر نہیں آرہے تھے۔
کاش ان پختون قبائل کا تعلق بھی کسی کشمیر سے ہوتا تو شاید پورے پاکستان میں ان سے اظہار یکجہتی کے لئے لوگ نکل آتے۔ ریاست پاکستان جس کی خاطر یہی قبائل پچھلے 70 سالوں سے قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ کشمیر ہو یا انڈیا ، افغانستان ہو یا روس انہوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے پیارے ملک پاکستان کی عزت و حرمت پر ایک آنچ تک نہیں آنے دی۔ مگر آج جب وہ عرصۂ دراز کے بعد آج جب وہ اپنوں کے لئے انصاف اور ریاست سے مدد کے طلبگار ہیں تو راؤ انوار کی طرح ریا ستی حکمران بھی لاپتہ ہو گئے ہیں۔
افسوس صد افسوس!!