حافظ حمد اللہ سینٹ کے رکن ہیں۔ اپنی اس حیثیت میں اسلام آباد کے ایک بہترین علاقے میں بنائے پارلیمانی لاجز میں الاٹ ہوئے ایک فلیٹ میں رہنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ تعلق ان کا جمعیت العمائے اسلام سے ہے۔ اس جماعت کے دو گروپس ہیں۔ ایک کی قیادت اکوڑہ خٹک کے مولانا سمیع الحق کے پاس ہے۔ دوسرے گروہ کے قائد مولانا فضل الرحمن ہیں۔ اس جماعت کے دونوں گروہوں کے لوگ اپنے ’’اسلاف‘‘ کا ذکر بہت فخر سے کیا کرتے ہیں۔ مولانا محمود الحسن جو ’’اسیر مالٹا‘‘ کے نام سے معروف ہوئے اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے افراد ہماری حالیہ تاریخ کے عظیم ترین اکابرین میں شمار ہوتے ہیں۔ برطانوی سامراج کے خلاف ان کی مزاحمت اذیت بھرے استقلال کی عملی مثالیں ہیں۔ ایسے اکابرین کا اصل وصف مگر انتہائی صبرواستقامت کے ساتھ علم کا پھیلائو تھا۔ دیوبند میں قائم ہوا ایک مدرسہ جس نے تحقیق کی جستجو کو زندہ رکھا۔ منطقی دلائل کے ذریعے ہمارے دین کی حقانیت کو مسلم ثابت کرنے کا چلن بھی اسی نے متعارف کروایا۔
میں ’’بارہ دروازے اور ایک موری‘‘ والے لاہور کے ایک قدمی محلے میں پیدا ہوا تھا۔ دنیاوی تعلیم کے لئے مسیحی مشنریوں کے بنائے رنگ محل ہائی سکول میں دس سال گزارے۔ میرے والدین کو اگرچہ مجھے اپنے دین سے آگاہ رکھنے کی بھی فکر لاحق رہی۔ ہمارا تعلق جس مسلک سے تھا، اس کی مبادیات سے کماحقہ روشناس کروانے کے باوجود مجھے ہر جمعرات بعدازنماز عصر محلہ شیرانوالہ میں مولانا احمد علی مرحوم کے درسِ حدیث میں شریک ہونے کے لئے بھی بھیجا جاتا۔ ان کا مسلک ہمارے مسلک سے اگرچہ قطعاً مختلف تھا۔
مولانا احمد علی ’’لاہوری‘‘ کہلاتے تھے۔ تعلق ان کا اگرچہ آبائی طورپر اس شہر سے نہیں تھا۔ کالج پہنچ کر تاریخ کی کتابوں سے میں نے دریافت کیا کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف چلائی ریشمی روحانی تحریک کے اہم ترین کرداروں میں سے ایک تھے۔
مولانا عبیداللہ سندھی کے داماد بھی۔ میں ایک شرارتی بچہ ہونے کی وجہ سے ان سے اکثر ’’لبرٹی‘‘ لیتا رہتا۔ایک بار بھی وہ مجھ سے کبھی ناراض نہ ہوئے۔ میری بے ہودہ باتوں پر زیرلب مسکراتے انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے۔ لہجہ ان کا انتہائی دھیما تھا۔ ان کی آواز بلند ہوتی میں نے تو ہرگز نہیں سنی۔ زیادہ تر اپنے گھر کے ایک حجرہ نما گھر میں خود کو محصور کئے بیٹھے رہتے۔ کبھی اپنے گھر سے باہر نکلنا ضروری ہوجاتا تو ان کا چہرہ رومال سے ڈھکا ہوتا۔ آنکھیں نیچی ہوتیں۔ یوں محسوس ہوتا کہ وہ دنیا سے ’’کنارہ‘‘ کئے ہوئے ہیں۔ وہاں پھیلی برائیوں کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
مولانا احمد علی جیسے اسلاف کی بنائی جماعت سے مگر اب حافظ حمد اللہ جیسے کردار پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹی وی سکرین پر کسی مذاکرے میں آئیں تو مخالف فریق کی آنکھوں میں اپنی خشونت بھری آنکھ ڈالے رہتے ہیں۔ ایک بار ’’لبرل‘‘ مشہور ہوئی ہماری ایک دوست کو انہوں نے ایسے الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا تھا جن کے استعمال نے منٹو کے افسانے ’’کالی شلوار‘‘ کو یاد دلا دیا۔ منٹو مرحوم تو اپنے افسانوں کی وجہ سے کئی مقدمات کا سامنا کرتے رہے۔ حافظ حمد اللہ مگر پارلیمان کے ایوانِ بالا کے معزز رکن ہیں۔ اس حیثیت میں غالباً انہیں سات خون بھی معاف ہیں۔ ان کی رعونت اور خشونت کو جب کبھی ٹی وی سکرینوں پر دیکھتا ہوں تو مجھے مولاناا حمد علی لاہوری یاد آجاتے ہیں۔ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان صاحب کے لہجے اور زبان کو واقعتا اپنی اور ’’اسلاف‘‘ کی وراثت میں شمار کرتے یا نہیں۔
بہر حال منگل کی شب ان صاحب نے سینٹ کے اجلاس میں کافی رونق لگائی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پارلیمانی لاجز میں شراب کی خالی بوتلیں جابجابکھری ہوئی ہیں۔ بچے انہیں دیکھ کر حافظ صاحب سے پوچھتے ہیں کہ ’’یہ کیا ہے‘‘۔ وہ شرمندگی سے خاموش ہوجاتے ہیں۔
میاں رضا ربانی ان دنوں سینٹ کے چیئرمین ہیں۔ ان کے والدقائد اعظم کے اے ڈی سی رہے ہیں۔ دیانت ان کے ڈی این اے کا حصہ ہے۔اپنی بات اور خیالات پر ڈٹے رہنا بھی رضا ربانی کی عادت ہے۔ منگل کی شب حافظ حمد اللہ کے ہذیانی کلمات کے سامنے مگر وہ کاملاََ بے بس نظر آئے۔
میں رضا ربانی کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ موصوف سے بے تکلفی بھی ہے۔ منگل کی شب لیکن میں نے رضا ربانی کی بے بسی سے سادیت پرست مریضوں کی طرح لطف اٹھایا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنی تھی۔ اس کمیٹی نے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہمارے آئین میں فوجی آمروں کی گھسانی شقوں کو بہت غور اور بحث وتمحیص کے بعد نکالنے کے لئے کام کیا تھا۔آئین کے 62/63میں لکھے الفاظ پر توجہ دینے کی مگر رضا ربانی جیسا اکل کھرا دیانت دار شخص بھی جرأت نہ کرپایا۔
میں نے 62/63کی اذیت سے جڑی منافقت کے بارے میں بدھ کی صبح جو کالم لکھا وہ جمعرات کو چھپا تو کئی دوستوں نے تعریفی فون کئے۔ ایمان داری کی بات ہے اس تعریف نے مجھے بجائے خوش کرنے کے مزید اداس کردیا۔ ہمارے دلوں میں جو باتیں ہیں وہ ہم کہہ ہی نہیں سکتے۔ یہ باتیں مگر بہت بنیادی اور عقلی حوالوں سے فطری اور جائز ہیں۔ ان کا اظہار اگرچہ ہم کر نہیں سکتے۔ کوئی اور اس ضمن میں ایک دو لفظ کہہ دے تو خوش ہوجاتے ہیں۔ ’’گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ والی کیفیت سے سرشار۔
اپنی جان کی امان مانگتے ہوئے حافظ حمد اللہ جیسے لوگوں کے بارے میں لکھے ایک دو فقرے مگر ہمارے مسائل کا حل نہیں۔اصل سوال اپنی جگہ قائم ہے اور وہ یہ کہ ہماری غلیظ سیاست میں ’’صادق اور امین‘‘ کیوں تلاش کئے جاتے ہیں۔ میرا اصرار ہے کہ یہ القاب صرف اور صرف میرے نبیؐ کے لئے مختص ہیں۔ میں انہیں کسی عامی سے منسوب ہوئے برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ عدالتوں اور پارلیمان میں لیکن ان القاب کا بے رحمانہ استعمال مسلسل جاری ہے۔ میں رضا ربانی، اعتزاز احسن،افراسیاب خٹک اور حاصل بزنجو جیسے ’’سیکولر‘‘ ہونے کے دعوے دار سیاست دانوں کو اس استعمال کے گناہ کا اصل ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ انہوں نے بزدلانہ منافقت برتتے ہوئے ان القاب اور ان سے وابستہ توقعات کو زندہ رکھا۔ ان کی اس منافقت کو درگزرکرنا بھی منافقت ہے اور میں اس کا مرتکب ہونے کی صلاحیت و سکت سے محروم ہوچکا ہوں۔