تحریر: آمنہ نسیم، لاہور
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق کا اسم مبارک عمر اور لقب فاروق ہے۔ آپ کا خاندانی شجرہ آٹھویں پشت میں حضور اکرم سے ملتا ہے۔ آپ کے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عتمہ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق کے بعد پوری ا ±مت میں آپ کا مرتبہ سب سے افضل اور اعلٰی ہے۔ آپ واقعہ فیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے آپ عمر میں تقریباً گیارہ سال حضور اکرم سے چھوٹے ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ قریش کے باعزت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
اعلان نبوت کے چھ سال بعد 27 سال کی عمر میں آپ نے اسلام قبول کیا۔ آپ مراد رسول ہیں یعنی حضور اکرم نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاکی اے پروردگار ! عمر یا ابوجہل میں جو تجھے پیارا ہو اس سے اسلام کو عزت عطا فرما۔ دعا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اور آپ مشرف با اسلام ہو گئے۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے 39 مرد اسلام قبول کر چکے تھے آپ 40ویں مسلمان مرد تھے۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی اور انہیں حوصلہ ملا۔ اسلام کی قوت میں اضافہ ہوا۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی مگر حضرت عمر مسلح ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اور کفار کے سرداوں کو للکارا اور فرمایا کہ جو اپنے بچّوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے وہ مجھے روک لے۔ حضرت عمر کی زبان سے نکلنے والے الفاظوں سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور کوئی مد مقابل نہ آیا۔ ہجرت کے بعد آپ نے جان و مال سے اسلام کی خوب خدمت کی۔ آپ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کرنے میں گزار دی۔ آپ حضور اکرم کے وفادار صحابی ہیں۔ آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام کے فروغ اور اس کی تحریکات میں حضور اکرم کے رفیق رہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ کی فضیلت میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔ سرکار دو عالم کا ارشاد گرامی ہے۔ لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب۔ ترجمہ :۔ میرے بعد اگر نبی ہوتے تو عمر ہوتے۔ (مشکوٰ? شریف ص558 ) مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوا کہ حضور اکرم آخری نبی ہیں۔ آپ پر نبوت و رسالت ختم ہو چکی۔ اب قیامت تک کوئی بھی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ جو اس واضح حقیقت کے باوجود دعوٰی نبوت کرے یا جو کوئی اس کو نبی یا رسول مانے وہ ملعون کاذب کافر و مرتد ہے۔ مذکورہ حدیث سے حضرت عمر فاروق کے مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر حضور پر نبوت ختم نہ ہوتی تو آپ کے بعد حضرت عمر فاروق نبی ہوتے۔ حضور اکرم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا۔
بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ (مشکوٰ? شریف ص558 ) ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد نے ارشاد فرمایا “اللہ تعالٰی نے عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرما دیا۔ (بحوالہ مشکوٰ? صفحہ557) معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ہمیشہ حق کہنے والے ہیں۔ ان کی زبان اور قلب پر کبھی باطل جاری نہیں ہوگا۔ اور یہ معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت عمر فاروق کے خوف اور دبدبے سے شیطان اور ان کے آلہ کار بھاگتے ہیں۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ “جب حضرت عمر فاروق اسلام لائے تو حضرت جبرائیل حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ آسمان والے عمر کے اسلام پر خوش ہوئے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ابن ماجہ بحوالہ برکات آل رسول صفحہ 291) سیدنا حضرت عمر فاروق کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں آپ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئیں۔ سیدنا حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے رائیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
تاریخ خلفاء میں ہے کہ حضرت عمر فاروق کسی معاملہ میں کوئی مشورہ دیتے تو قرآن مجید کی آیتیں آپ کے مشورے کے مطابق نازل ہوتیں۔ (تاریخ الخلفائ ) مسلمانو ! سیدنا حضرت عمر کے مشوروں کو اللہ تعالٰی کس طرح پسند فرماتا تھا اس کا اندازہ اس طرح لگائیے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نے حضور اکرم سے عرض کی یارسول اللہ ! آپ کی خدمت میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے ہیں اور اس وقت آپ کی خدمت میں آپ کی ازواج بھی ہوتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ ان کو پردہ کرنے کا حکم دیں چنانچہ حضرت عمر کے اس طرح عرض کرنے پر ازواجِ مطہرات کے پردے کے بارے میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی۔ ارشاد خداوندی ہے۔
واذا سالتموھن متاعا فسلوھن من ورآءحجاب (پ22 ع4 ترجمہ :۔ اور جب تم امہات المومنین سے استمعال کرنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔ ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت عمر فاروق کے پاس آ کر کہنے لگا کہ تمہارے نبی جس جبرائیل فرشتہ کا تذکرہ کرتے ہیں وہ ہمارا سخت دشمن ہے۔ حضرت عمر فاروق نے اس کو جواب دیا۔ من کان عدواللہ وملکتہ ورسلہ وجبریل ومیکال فان اللہ عدو للکفرین ہ ترجمہ :۔ جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرئیل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا۔
جن الفاظ کے ساتھ سیدنا حضرت عمر فاروق نے یہودی کو جواب دیا بالکل انہی الفاظ کے ساتھ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں آیت کریمہ نازل فرمائی۔ (پ1 ع12) ? ان واقعات سے حضرت عمر فاروق کی شان و عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اس قدر محبوب تھے کہ آپ کے خیال کے مطابق قرآن مجید کی کئی آیتیں نازل ہوئیں۔
حضرت عمر فاروق نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں یہ دعاء کی۔
یارب مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے موت عطا فرما۔ (بخاری شریف بحوالہ تاریخ الخفائ ص90) صحابہ رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا۔ اس کا نام ابو لولوہ تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المو ¿منین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ ب ±ری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد 23سال کی ع ±ًمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔
حضرت عمر سے ان کی شہادت کے موقع پر لوگوں نے پوچھا، یا امیر المو ¿منین کچھ وصیتیں فرمائیے اور خلافت کے لئے کسی کا انتخاب بھی فرما دیجئے اس موقع پر حضرت عمر فاروق نے ارشاد فرمایا خلافت کے لئے میں ان چھ صحابہ کو مستحق سمجھتا ہوں جن سے اللہ کے رسول دنیا سے راضی ہو کر گئے ہیں۔ پھر آپ نے چھ صحابہ کے نام بتائے۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد بن وقاص۔ ان چھ صحابہ میں سے جن کو چاہیں منتخب کر لیں۔ (ملاحظہ کیجئے تاریخ الخلفائ ) حضرت عمر فاروق کی شہادت کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے چھ صحابہ کو خلیفہ کے انتخاب کے لئے جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ پہلے تین آدمی اپنا حق تین آدمیوں کو دے کر خلافت کے حق سے الگ ہو جائیں۔ لوگوں نے اس کی حمایت کی۔ چنانچہ حضرت زبیر حضرت علی کے حق میں، حضرت سعد بن وقاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے حق میں، اور حضرت طلحہ حضرت عثمان کے حق میں دست بردار ہو گئے۔ تینوں منتخب صحابہ باہمی مشورے کے لئے ایک طرف چلے گئے اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے فرمایا کہ میں اپنے لئے خلافت پسند نہیں کرتا لٰہذا میں اس سے دست بردار ہوتا ہوں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما خاموش کھڑے رہے۔
پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے دونوں صحابہ سے فرمایا۔ اگر آپ دونوں حضرات خلیفہ کے انتخاب کا کام میرے ذًے چھوڑ دیں تو خدا کی قسم ! میں آپ دونوں میں سے بہتر اور افضل شخص کا انتخاب کروں گا۔ دونوں حضرات اس پر متفق ہو گئے۔ دونوں بزرگوں سے عہد و پیماں لینے کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حضرت علی کو ایک کونے میں لے گئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے علی () آپ اسلام قبول کرنے والے اولین میں سے ہیں اور آپ حضور اکرم کے قریبی عزیز ہیں لٰہذا میں اگر آپ کو خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ خلافت قبول کر لیں گے۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں۔ اگر میں آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو آپ پر خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ منظور کر لیں گے۔ حضرت علی نے فرمایا۔ مجھے یہ بھی منظور ہے۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت عثمان غنی کو ایک کونے میں لے گئے اور یہی دو سوال کئے وہ بھی متفق ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اس طرح حضرت علی نے بھی بیعت کر لی۔
تحریر: آمنہ نسیم، لاہور