9ویں سکواڈرن کے فلائٹ لیفٹیننٹ کمباتی نیچیکیتا بھارت کی ائیرفورس کے اس پائلٹ کا نام ہے‘ جس کے متعلق ممکن ہے کہ آج کسی کو کچھ یاد ہی نہ ہو‘ لیکن اس کا نا م اورکام نہ چاہتے ہوئے بھی ا س لئے قوم کے سامنے لانا پڑ رہا ہے‘
تاکہ کچھ حقائق درست کرتے ہوئے پاکستانیوں اور نواز لیگ کے سوشل میڈیا کے سامنے رکھ سکوں۔ اس بھارتی پائلٹ کو 1999ء کی کارگل جنگ میں اس کے جہاز ایم آئی جی 27 سمیت مار گرانے کے بعد بٹالک سیکٹر سے گرفتار کیا تھا‘ جب فلائٹ لیفٹیننٹ کمباتی کا جہاز زمین بوس ہو رہا تھا‘ تو اس وقت اس کے ساتھ مشن پر آئے ہوئے اس کے سینئر ایم آئی جی 21 کے سکواڈرن لیڈراجے اہوجا کو اس نے جب اپنے جہاز سمیت مار گرتے دیکھا تو کمباتی نے اپنا جہاز ہٹ ہوتے ہی پیرا شوٹ سے کودنا بہتر سمجھا‘ جہاں زمینی فورسز نے اسے گرفتاری کے بعد راولپنڈی بھیج دیا۔ کمباتی کو سات دن بعد تین جون کو رہا کرتے ہوئے ‘واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا ۔رہائی کے بعد اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی اور وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے اپنے دفتر بلا کر اپنے اس افسر کا باقاعدہ استقبال کرتے ہوئے اسے باقاعدہ بہادری کے اعزاز سے بھی نوازا ۔
27 مئی 1999ء کو فلائٹ لیفٹیننٹ کمباتی کو بھارتی ائیر فورس کےایم آئی جی 27 میں 80 ایم ایم کے راکٹوں سے لیس کرتے ہوئے ٹاسک دیا گیا کہ وہ کارگل اور دراس کی 17 ہزار فٹ کی بلندیوں پر پاکستانی فوج کی قبضہ میں لی گئی چوٹیوں پر بمباری کرتے ہوئے انہیں خالی کرائے‘ لیکن وہ اپنے اس مشن میں بری طرح ناکام رہا اور پاکستان کے ائیر ڈیفنس کے افسروں اور جوانوں کی مہارت کا شکار ہو گیا۔ شاید آج میں کارگل میں بنائے گئے اس فلائٹ لیفٹیننٹ کے بارے یہ سب کچھ نہ لکھتا‘ لیکن جب سے وزیر اعظم عمران خان نے گرفتار بھارتی پائلٹ آبھینند کو رہا کیا ہے‘ نواز لیگ کا سوشل میڈیا سیل سمیت دیگر وزیراعظم عمران خان کے مخالفین نے اکٹھے ہو کر وہ حشر اٹھا رکھا ہے کہ خدا کی پناہ اور اس کا نظارہ آپ سوشل میڈٖیا پر دیکھ بھی رہے ہوں گے۔ خواجہ آصف سمیت نواز لیگ نے ہر کارکن نے بھارتی ائیر فورس کے آزاد کشمیر سے گرفتار کئے گئے‘ اس بھارتی پائلٹ کی رہائی کو کہیں وزیراعظم عمران خان کی بزدلی تو کہیں مودی سے رحم کی بھیک مانگنے سے تشبیہ دینے کا سلسلہ اس گھٹیا طریقے سے شروع کر رکھا ہے کہ بھارتی میڈیا اور ان میں فرق معلوم کرنا مشکل ہو چکا ہے۔
نواز لیگ کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اگر میاں نواز شریف کی حکومت ہوتی اور وہ اس بھارتی پائلٹ کو فوری رہا کردیتے تو لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔ جناب آپ کو اگر یاد نہیں رہا تو بتائے دیتا ہوں کہ یہ کام تو آپ 1999ء میں ہی کر چکے۔ بھارتی ائیر فورس کے بحیثیت ونگ کمانڈر ریٹائر ہونے والے کمباتی کا رینک فلائٹ لیفٹیننٹ اور اس کی عمر 26 سال تھی‘ جب اسے کارگل جنگ کے دوران دراس سیکٹر سے گرفتارکیا گیا تھا۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان3 مئی سے26 جولائی تک دو ماہ تین ہفتے اور دو دن لگاتار جاری رہنے والی کارگل کے نام سے باقاعدہ جنگ تھی ‘جبکہ آج بھارت اور پاکستان کے درمیان تو کوئی جنگ ہی نہیں ہوئی اور اگر میاں شہباز شریف اور خواجہ آصف سننا پسند فرمائیں تو یہ بھی بتا ئے دیتا ہوں کہ بھارت کے اس پائلٹ کی رہائی کے احکامات اس وقت کے پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن جے پارتھا سارتھی کی مداخلت پر میاں نواز شریف نے واجپائی کو فون کرتے ہوئے خود جاری کئے تھے۔ جناح روڈ اسلام آباد پر واقع وزارت خارجہ کے دفتر میں بھارتی پائلٹ کو حوالے کرنے کیلئے بلائی گئی پریس کانفرنس میں پارتھا سارتھی کو مدعو کیا گیا‘ لیکن اس نے شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
وہ فتح‘ جو ہماری فوج نے بھارت کے دو فائٹر جہاز گراکر حاصل کی ہے ‘پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نواز لیگ کی قیا دت اور ان کے سوشل میڈیا اور بھارتی میڈیا نے ایک آواز ہو کر کم کرنے میں دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ شاید اس لئے کہ دونوں کا دشمن مشترکہ ہے اوراسی لئے کہا گیا ہے کہ اپنے دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی مکمل کارروائی دیکھنے کے بعد ایسے لگا کہ یہ سب کھیل نواز لیگ نے اپنے ڈرامے رچانے کیلئے سجایا تھا ‘جہاں نون لیگ کا ہر مقرر اسے براہ راست دکھائی جانے والی ٹی وی ٹاک بنانے میں جتا رہا۔ بجائے اس کے کہ پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس میں قومی اتحاد کو اجاگر کیا جاتا‘ان کا تمام وقت اور زور صرف میاں نواز شریف کو وزیراعظم عمران خان کے مقابلے میں دنیا کا سب سے بڑا لیڈر ثابت کرنے میں رہا۔ موٹر وے سے لے کر جے ایف تھنڈر اور پھر ایٹم بم کا تمام سہرا میاں نواز شریف کے سر سجانے میں ہی لگے رہے۔ ڈاکٹر قدیر کے دو درجن سے زائد انٹرویو‘ مرحوم مجید نظامی کی وارننگ کے علاوہ چاغی کے ایٹم بم کی الف سے ی تک کی کہانی میں کوئی چھ ماہ قبل سی اسٹوری آف چاغی کے نام سے روزنامہ دنیا میں دو اقساط میں لکھ چکا ہوں اور ”دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘ کے مصداق‘ جے ایف تھنڈر کا معاہدہ نواز شریف نہیں‘ بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دورِ حکومت میں ہوا تھا۔
خواجہ آصف سے مشاہد اﷲ اور پھرخیر سے میاں شہباز شریف نے تو اپنی ہر تقریر میں یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ جو بھارتی پائلٹ گرفتار ہوا ہے یہ پاکستان کی ائیر فورس کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ ان کے بھائی میاں نواز شریف کے جے ایف تھنڈر کی وجہ سے گرفتار ہوا ہے‘ گویا ہماری ائیر فورس کے پائلٹ تو بس ویسے ہی بھیجے گئے تھے۔ مقام افسوس ہے کہ اس قومی یکجہتی کے موقع پر بھی یہ لوگ اپنی گھٹیا قسم کی سیا ست سے باز نہ رہ سکے۔یہ جو موٹروے پر رن وے بنائے گئے ہیں؛ اگر ان کا سچ شہباز شریف اور خواجہ آصف سمیت نون لیگ کے دوستوں میں جاننے اور سننے کا حوصلہ ہے‘ تو سن لیجئے کہ آپ نے یہ موٹروے دسمبر 1997ء میں مکمل کی اور صرف ایک سال بعد لاہور سے سالٹ رینج تک اس میں جگہ جگہ گڑھے پڑنا شروع ہو گئے (سالٹ ایریا کا حصہ اس میں شامل نہیں کر رہے‘ کیونکہ یہ تو ہر ماہ مرمت کی جارہی ہے) اور وہ لوگ جو 2000ء سے موٹروے استعمال کر رہے ہیں‘ وہ اگر سچ بتانا چاہیں تو کہیں گے کہ کھربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی جانے والی موٹر وے ایک سال بعد ہی جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی رہی‘ جسے مشرف دور میں جگہ جگہ مرمت کیا گیا اور پھر اس موٹر وے کے تین مقامات کو پاکستان ائیر فورس کے انجینئرز کی مشاورت سے اس طرح تعمیر کیا گیا‘ تاکہ ان مخصوص جگہوں پر کسی بھی ہنگامی حالات میں جہازوں کے استعمال میں لایا جا سکے۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور اگر منا سب سمجھیں ‘تواس وقت کئے گئے ان اخراجات کی مکمل تفصیلات‘ جو ان کے ریکارڈ میں آج بھی موجود ہیں‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ جہاں تک میزائل سسٹم کی بات ہے تو وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کا ریکارڈ بتاتاہے کہ میزائل ٹیکنالوجی شمالی کوریا سے بے نظیر بھٹو دور میں حاصل کی گئی ‘جس سے میاں نواز شریف کا دور دور تک بھی تعلق نہیں اور وزیر اعظم عمران خان کا تو ہو ہی نہیں سکتا‘ کیونکہ انہیںتو اقتدار سنبھالے ابھی عرصہ ہی کتنا ہوا ہت۔واشنگٹن پوسٹ نے اپنی یکم مارچ 2019ء کی اشاعت میں نیہا مسیح کی سٹوری شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی پر یہ کہنا قطعی غلط نہیں کہ ریلیز آف دس پائلٹ اورٹڈ این انڈیا پاکستان وار